کرونا وباء اور تعلیمی شعبہ
موجودہ کرونا کی وجہ سے عجیب حالات پیدا ہو چکے ہیں اس وباء نے پوی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔دنیا کی معیشت بالکل تباہ ہو چکی ہے جہاں بڑے بڑے کاروباری ادارے شدید مالی مشکلات اور بحران کا سامنا کر رہے ہیں وہاں تعلیمی شعبہ بھی شدید متاثر ہوا ہے ۔ تعلیمی اداروں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ایک غالب تعداد انفاسٹریکچر ،بلڈنگ کرایہ جات، یوٹیلٹی بلز اوراسٹاف کی تنخواہ دینے سے بھی قاصر ہے ۔ان اداروں میں پڑھنے والے بچوں کاتعلیمی حرج ہو رہا ہے وہ ناقابل برداشت اور ناقابل بیان ہے ۔ والدین اپنی جگہ فکر مند ہیں ۔کئی تعلیمی ادارے آئی ٹی کی سہولت سے بھی ابھی پوری طرح مستفید نہیں ہو پا رہے ہیں ان اداروں کے اساتذہ کرام انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پوری طرح آشنا نہیں ہیں …کرونا عالمی وبا ہے یا عذاب الہی،جو کچھ بھی ہے یہ چھوٹا سا جراثیم آج پوری دنیا کے لیے درد سری بن چکا ہے۔یہ جرثیم بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب کے دنیا کے کونے کونے میں بیک وقت پھیل چکا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خطرناک صورت حال اختیار کر گیا، اس وباء نے دنیا میں دس لاکھ سے زائد انسانوں کو شکار کیا۔اور کڑروں لوگ متاثر ہو چکے ہیں ،اس وباء نے اہل زمین پر رہنے والوںکو سوچنے پر مجبور کردیاہے آخرکیا خطا ہو گئی ہے کہ اللہ پاک نے اپنے بندوںکو ایک نا چیز وائرس کے زریعے اتنی بڑی تعداد میں پریشان کر رہا ہے۔اس وائرس کے سلسلے میں جتنے منہ اتنی باتیں ہر بندہ اپنی اپنی دانست کے مطابق اپنے اپنے اندازوں اور مفروضوں سے اس وباء کی تشریع کر رہا ہے ۔اور تو اور اس کے اسباب اور علاج میں بھی پیش پیش ہے ۔ہر بندہ مذہبی سکالر ،ڈاکٹر،حکیم اور سیانا بن بیٹھا ہے ،لیکن وائرس ہے کہ ابھی تک کسی قسم کے مشوروں سے کنٹرول ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کے نظام زندگی کو تہس نہس کیے جا رہا ہے۔وائرس کے پھیلاو کے سلسلے میں مفروضے جاری وساری ہیں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے اعمال ہی اس طرح کے ہوں گے کہ جس کی وجہ سے یہ آفت آئی یعنی لوگوں نے خود خدا کے غضب کو للکارا ،کئی لوگ روح زمین پر ناانصافی ،نا حق قتل وغارت اور معصوموں کی آٰہ وبکا کو بھی زمہ دار ٹھرا رہے ہیں ،اور کسی جگہ قدرت اپنے طریقے سے ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے بھی جو دھویں اور انسانوں کے زریعے فضائی اور زمینی تہہ آلودہ ہو چکی تھی اسے اپنی اصلی حالت میں لانے کا سبب بھی قرار دے رہے ہیں ۔خیر یہ سب مفروضے ،خود رو کہانیاں اور قیاس آرائیاں ہیں باقی اللہ عالم غیب ہے ۔آنے والا وقت ہی بتائے گا آخر قدرت نے رواں دواں ہنستی بستی زندگی کو کیوں جامد کر دیا ؟ اس نا چیز وائرس کے آگے خطرناک اور تباہ کن ایٹم بم رکھنے والے ممالک بھی بے بس ہیں اور تمام دنیا کو گھروں تک محدود کر دیا کاروبار زندگی ٹھپ ہو گیا اور زندگی گویا رک سی گئی ۔ہر انسان آسمان والے کی طرف دیکھ رہا ہے ملکوتی طاقتیں بھی خدا کے سامنے بے بسی کا رونا رو رہی ہیں ۔وبا کی پریشانی اور نقصان اپنی جگہ لیکن جو زہنی خوف وہراس کی سی کیفیت ہے اور یہ ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔اس خوف وہراس کا زیادہ زمہ دار سوشل میڈیا ہے جس نے ہر وقت ایک ہی خبر کو چوبیس گھنٹے چلا کر لوگوں کو نفسیاتی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. ہم سب کا بحثیت قوم فرض ہے کہ آفت کی اس گھڑٰی میں مستقل مزاجی اور ثابت قدم رہنے کا درس دیں اور یہ کام اساتذہ اور اہل علم و فکر زیادہ بہتر انداز سے کر سکتے ہیں۔کرونا وائرس کے پیدا کردا ان کٹھن حالات میں سینٹ میریز اکیڈمی نے 14اپریل سے ہی آن لائن کلاس کا اجراء کر دیا ہے نہ صرف یہ بلکہ اپنے اساتذہ کو جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کو استعمال کرنے کے جدید طریقے بنائے وہاں ان کو جدید انٹرنیٹ کی سہولتیں بچون کے والدین کی بہت بڑی تعداد نے سینٹ میریز اکیڈمی کی اس شاندار کاوش کو سراہا ہے اور اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔حکومت پاکستان کی وضع کردہ ہدایات کی روشنی میں سینٹ میری اکیڈمی تمام کلاسز کے طلباء کی ماہانہ فیس میں 20 فیصد کمی کر دی ہے جس فائدہ بچوں کے والدین کو براہ راست پہنچ رہا ہے ۔ اکیڈمی انتظامیہ پورے عملہ اور سٹاف کو باقاعدہ تنخواہیں دے رہی ہے۔ساری صورت حال کا تسلی بخش پہلو والدین کا آن لائن سسٹم پر اطمینان ہے۔اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ اکیڈمی کی ٹیچر اپنے سٹوڈنٹس کو جو ہوم ورک کرواتی ہے اسے باقاعدگی کے ساتھ واٹس ایپ پر چیک کرتی ہے اور اپنے ریمارکس بھی واٹس ایپ پر دیتی ہے اسی طرح بچے آئی ٹی سے مستفید ہوتے ہیں اسی طرح طلباء کو جو کچھ کلاس میں پڑھایا جاتا ہے اس کا کلاس ٹیسٹ بھی آن لائن لیا جاتا ہے اور بعد ازاں بچوں کو اور بچوں کے والدین کو نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے باقاعدہ پراگرس رپورٹ فراہم کی جاتی ہے یہ سارا عمل بھی وائس ایپ اور زوم پر کیا جاتا ہے تمام کلاسز کو واٹس ایپ پر مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اسی طرح تمام لیول کو کوآرڈینیٹرز ہفتہ وار آپس میں بھی میٹنگ کرتے ہیں جس میں اپنی ذمہ داری طلباء کے تدریسی مسائل سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا جاتا ہے یہ سارا عمل ہرہفتہ ہوتا ہے ۔ آن لائن کلاسز میں بچوں کی شمولیت اور اساتذہ کی دلچسپی نے سلیبس مکمل کرنے کے خواب کی تعبیر دی ہے باقاعدہ کلاسز ،ماہانہ ٹیسٹ اور رزلٹ سے اکیڈمی انتظامیہ اور پرنسپل پر اعتماد جو فضا قائم کر دی ہے اس پر ستائش و پزیرائی کے کئی مینار تعمیر کئے جا سکتے ہیں ۔خوشی کا مقام ہے کہ حکومت پاکستان نے کرونا وائرس اور لاک ڈائون کی اس نئی صورت حال میں ایجوکیشنل ٹیلی ویژن کا اجراء کیا یقیناً ایسے قدم علم دوستی اور تعلیم دوستی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔والدین اور اساتذہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ وزیر تعلیم سینیٹر شفقت محمود اور وزارت تعلیم علمی ترقی اور نظام امتحانات کی بہتری کے لئے تمام اسٹک ہولڈرز سے مشاورت کرے ،ایسا کرنے سے شعبہ تعلیم کو نئے حالات کے نئے چیلجزسے نمٹنے میں مدد ملے گی ۔