کئی روز سے مائنس مائنس ہو رہا ہے کوئی مائنس ایک کی بات کرتا ہے تو کوئی مائنس دو، کوئی کہتا ہے مائنس تین ہوں گے تو کوئی کہتا ہے مائنس ایک سو ساٹھ ہوں گے ہم مائنس پلس فارمولے کے ساتھ میدان میں آئے ہیں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور دہراتے ہیں کہ اگر مائنس ہوا تو ایک دو تین یا ایک سو ساٹھ نہیں مائنس تین سو بیالیس ہو گا۔ یاد رکھیں اور لکھ لیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے کہ حالات جس تیزی کے ساتھ خراب ہو رہے ہیں اس کے بعد ایک دو قربانیوں سے گذارہ نہیں ہو گا پھر بڑی قربانی ہی دینا پڑے گی۔ یہ قربانی نظام کی صورت میں ہو گی۔ سب کچھ لپیٹا جائے گا۔ سیاست دان وہی حرکتیں کر رہے ہیں جو انیس سو ستتر میں کر رہے تھے، ویسی زبان استعمال ہو رہی ہے اور سب ہر وقت ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی بڑی کرسی پر بیٹھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہے کوئی بھی ہو، کچھ آتا ہے یا نہیں آتا۔ بس سب کو ہر حال میں بادشاہ بننے کا شوق ہے۔ اس شوق میں طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔ مچھلی منڈی کا منظر ہے۔
یہ بالکل انیس سو ستتر کا منظر اس لیے بھی ہے کہ آج تمام سیاسی جماعتیں حکومت کی مخالفت میں کھڑی ہیں۔ صرف مخالف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ حکومت کے اتحادیوں کا شمار بھی ان کے مخالفین ہوتا ہے۔ یہ اعزاز بھی پاکستان تحریک انصاف کو جاتا ہے کہ وہ جن کی مدد اور ووٹوں سے حکومت میں آئے ہیں آج وہ حکومتی بنچوں پر تو ہیں لیکن حکومت کے مخالف ہیں۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کے جہاز پر بیٹھ کر آنے والے تمام افراد اب کسی اور جہاز کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کوئی ایک شعبہ یا دھڑا ایسا نہیں ہے جو حکومت سے خوش ہو یا اس کی کارکردگی سے مطمئن ہو ماسوائے ان چند کنٹینر مزاج سیاست دانوں کے جو ہر وقت قوم کو گمراہ کرنے کے لیے غلط بیانی سے کام لیتے رہتے ہیں۔ انہی چند افراد کی وجہ سے آج بھی عمران خان وزیراعظم کم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ زیادہ لگتے ہیں۔ ان حالات میں کہیں سے کوئی مدد یا تعاون ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ تین سو بیالیس مائنس ہوں گے تو اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ نا قومی سلامتی کے دشمنوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے نا ملک صوبائی تعصب رکھنے والوں اور اداروں کو تباہ کرنے والے کے حوالے کیا جا سکتا ہے جنہیں تبدیلی کے خواب اور امید کے ساتھ لایا گیا تھا انہوں نے اپنی کارکردگی سے سب کو مایوس کیا ہے، عوام کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں۔ ملک قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے ان حالات اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مائنس ایک دو تین سے کام چل جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ ان حالات میں بکرے کی قربانی سے کام نہیں چلتا اونٹ ذبح کرنا پڑے گا۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سب مائنس ہو جائیں گے کوئی نہیں بچے تو خیال آتا ہے کہ کوئی تو ایسا راستہ، ذریعہ یا صورت ہو گی جمہوریت چلتی رہے۔ لوگ شخصیات کی طرف دیکھتے ہیں کہ فلاں آ جائے تو یہ ہو جائے گا فلاں آ جائے تو سب کچھ بچ جائے گا ایسا بالکل نہیں ہے اس نظام کو بچانے کے لیے اگر موجودہ سیاست دان ہی سنجیدہ نہ ہوئے تو کوئی باہر سے بچانے کے لیے نہیں آئے گا۔ ہر کوئی صبح اٹھتا ہے دوسرے کو برا بھلا کہتا ہے اپنے کام کرتا ہے شام کو پھر برا بھلا کہنے آ جاتا ہے۔ لعن طعن اور الزامات کا یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ کے بڑھکیں لگانے والے، مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہم خیال یہ یاد رکھیں کہ صرف پاکستان تحریک انصاف مائنس نہیں ہو گی پھر یہ سب گھر جائیں گے۔
بعض دوست یہ سوال کرتے ہیں بچت کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کا جواب نہایت سادہ ہے اور یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے اس کا جواب صرف اور صرف کارکردگی میں بہتری اور عوامی مسائل کا حل ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے وزرائ سنجیدہ ہو جائیں، عمران خان اپنی ٹیم میں سلجھے ہوئے سمجھدار اور قابل افراد کو شامل کریں ایسے افراد جن کی زبان کم اور دماغ زیادہ چلے، ایسے افراد جو عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں، شعور رکھتے ہوں، کام کرنے کی لگن ہو، دفتر کھانے اور سونے کے بجائے کام کرنے آئیں تو کارکردگی بھی بہتر ہو گی عوام کے مسائل بھی حل ہوں گے اور مائنس تین سو بیالیس کے راستے میں سپیڈ بریکر آ جائے گا اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر سب مائنس ہوں گے اور اس کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ جو حکومت لگ بھگ دو سال تک بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہو اس کے بعد بھی ان سے بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
یہاں بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ پی ٹی آئی سے پہلے دونوں جماعتوں نے تو بڑی کارکردگی دکھائی ہے یہ فلسفہ درست نہیں آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ ان کا ہی کیا دھرا ہے۔ دس سال کی تباہ کن جمہوریت میں دو سال موجودہ حکومت کے بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ بارہ سال پاکستان کی تاریخ پر بھاری ہیں۔ داغدار، کرپشن، میرٹ کے قتل عام اور قرضوں سے بھرے ماضی کے ساتھ مستقبل روشن کیسے ہو سکتا ہے۔ یوں کارکردگی کے اس حمام میں سب ننگے ہیں اور سب کو اپنی اپنی کارکردگی کا بہت اچھی طرح علم ہے۔
جے آئی ٹی پر ہی سیاست دانوں کا رد عمل دیکھ لیں ایک دوسرے کی کھال نوچ رہے ہیں۔ الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے بجائے یہ عوام کے ساتھ بھی کھڑے ہو سکتے تھے، عام آدمی کے لیے کیے گئے اقدامات بھی گنوا سکتے تھے، عوام کی بہتری کے لیے بھی وقت خرچ کر سکتے تھے لیکن ان کا مقصد عوام کی فلاح نہیں، عوامی مسائل ان کی ترجیح نہیں۔ ان کا مقصد ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہے ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنا ہے اور وہ یہ کام بخوبی کر رہے ہیں۔ جنہوں نے ووٹ ڈالا ہے وہ بھاڑ میں جائیں۔ یہی صورتحال پاکستان مسلم لیگ نواز کا ہے اگر وہ ملک کو اچھی معاشی حالت میں چھوڑ کر جاتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ وہ ایک ایسی عمارت چھوڑ کر گئے ہیں جس کی انہیں امید تھی کہ دھکا دیں گے اور دھڑام سے گھر جائے گی اور وہ دوبارہ آ کر تعمیر شروع کر دیں گے۔ انہیں بھی اپنے علاوہ کوئی پسند نہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں۔ یہی حال مولانا فضل الرحمن کا ہے ان کا بھی مسئلہ مسلسل اقتدار ہے وہ ہر وقت اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔,یہ سارا کھیل طاقت اور دولت کے نشے کا ہے۔ اس میں کہیں دور دور بھی عوام کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔
ہمارے مسائل کیا ہیں، ہمارے مسائل بڑے بڑے منصوبوں کی کمی یا ترقیاتی منصوبے نہیں ہیں۔ ہمارے بنیادی مسائل اچھی خوراک، اچھی صحت اور اچھی تعلیم کے ہیں۔ عمران خان ماضی میں تقریریں کرتے اور کہتے تھے کہ لوگوں کو اچھی صحت، اچھی تعلیم، اچھا ماحول اور پرامن زندگی دے دی جائے تو اس ملک کے عوام بہترین پاکستانی اور کامیاب شہری بن سکتے ہیں۔وہ خود کہا کرتے تھے کہ اس ملک کو موٹر ویز اور بی آر ٹیز کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے مسائل بنیادی سہولیات کی کمی ہے تو اب وہ وزیراعظم ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ سہولیات ہی عوام تک پہنچا دیں تاکہ عام آدمی کو پتہ لگے کہ سیاست دان جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے نہ ماضی میں کچھ ہوا نہ اس حکومت نے کچھ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے اراکین اسمبلی اور کچھ اتحادیوں نے پاکستان مسلم لیگ ن سے رابطہ کیا ہے اور انہیں پیشکش کی ہے کہ اگر وہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہیں تو وہ ن لیگ کا ساتھ دیں گے لیکن اس شرط پر کہ اگر حکومت جاتی ہے نئے انتخابات ہوتے ہیں تو پھر انہیں عام انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کیے جائیں گے۔ ان اراکین نے کہا ہے کہ ہم تحریک عدم اعتماد کے بعد رکنیت چھوڑ دیں گے اور نیا الیکشن آپ کے ساتھ لڑیں گے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا رابطہ رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہے۔ سنٹرل پنجاب کے چند ایم پی ایز نے بھی رانا ثناء اللہ کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024