قومی اسمبلی اجلاس کے لیے کوئی بزنس اقلیتوں کیساتھ ہیں حکومت اپوزیشن اتفاق
قومی اسمبلی کا 23 واں سیشن شروع ہونے سے پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کا اہم اجلاس ’’آئینی روم‘‘ میں زیرصدارت سپیکر اسد قیصر منعقد ہوا جس میں طے پایا ہے کہ قومی اسمبلی کا 23 واں سیشن 28 جولائی2020ء تک جاری رکھا جائے گا۔ عیدالاضحیٰ کی چھٹیاں منانے کے بعد قومی اسمبلی کا دوبارہ اجلاس بلایا جائے گا اور12اگست 2020 ء تک قومی اسمبلی کے ایام کار مکمل کئے جائیں گے۔ سپیکر کی جانب سے 7 اگست 2020ء کو پونے گیارہ بجے رات ارکان قومی اسمبلی کا ایس ایم ایس کے ذریعے قومی اسمبلی کے اجلاس بارے میں آگاہ کیا گیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے حکومت کس حد تک اجلاس کے انعقاد میں دلچسپی رکھتی تھی۔ بدھ کو پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں بھی قومی اسمبلی کے ایام کار پورے کرنے کا معاملہ ہی موضوع بحث رہا۔ اجلاس کو کرونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے بجٹ اجلاس کے دوران اختیار کردہ طریقہ کار کو ہی جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ اپوزیشن کے ایک سینئر رکن نے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی بزنس نہیں بس قومی اسمبلی کے ایام پورے کرنے کے لئے اجلاس بلایا گیا ہے۔ چونکہ حکومت کے پاس کوئی بزنس نہیں تھا لہذا ایواں میں پوائنٹ آف آرڈرز پر 78فیصد عوامی مسائل پر ہی بات ہوتی رہی جب اجلاس شروع ہوا تو ایوان میں 75ارکان موجود تھے جب اجلاس جمعرات کی صبح 11بجے تک ملتوی ہوا اس وقت 63ارکان تھے تاہم کسی رکن نے کورم کی نشاندہی نہیں کی ایوان میں 39ارکان نے پوائنٹ آف آرڈرز پر عوامی مسائل پر بات کی اجلاس میں وزیر آئے اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر البتہ ایوان میں شاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ، احسن اقبال اور رانا تنویر حسین خاصے سرگرم عمل تھے ایوان میں خواجہ آصف اور سید نوید قمر نے سوشل میڈیا پر اقلیتوں کے خلاف مہم کا معاملہ اٹھایا۔ ایوان میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو جواب دینا پڑا۔ بدھ کو یورپی یونین سیفٹی ایجنسی کی جانب سے پی آئی اے کی فلائٹس پر لگائی جانے والی پابندی کی باز گشت سنی گئی۔ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی تقریر کے دوران اس وقت اپوزیشن نے شور شرابہ کیا جب غلام سرور خان نے براہ راست میاں نواز شریف کے خلاف کے الزامات عائد کئے کہا ہے کہ دنیا کے ٹاپ ٹین کرپٹ وزرئے اعظم میں نواز شریف شامل تھے،ملک کو بدنام تو انہوں نے کیا،چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں ،دو نمبر کو دو نمبر نہ کہیں تو کیا کہیں،جہاز کن کے دور میں غائب ہوا،یہ رہتے تو پی آئی اے بھی غائب ہو جاتی ،لائسنسوں کی تجدید بھی آپ کچھ لے کر کرتے تھے وہ ہم نے ختم کر دیااس موقع پر اپوزیشن نے ایوان میں جھوٹے جھوٹے کے نعرے لگائے بہر حال انہوں نے کہا کہ’’ میں آج اپنے بیان پر قائم ہوں،اپوزیشن کو تسلیم کرنا چاہیے کہ 658 لوگ ان کے دور میں جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے، یہ سارا کچھ 2010ء سے لے کر 2018ء تک ہوا۔