برسوں پہلے زمانۂ طالب علمی میں بالی ووڈ کی ایک مشہور مووی دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں لیجنڈ اداکار امیتابھ بچن اپنے ملازم منشی جی کو جو پستہ قد کے ساتھ لمبی مونچھیں رکھے ہوئے تھے جب یہ کہتے ’’مونچھیں ہوں تو نٹور لال جی جیسی‘‘ تو شائقین خوب تالیاں بجاتے۔ قارئین! جب مونچھوں کی بات نکل پڑی ہے تو قیامِ پاکستان کے بعد مغربی پنجاب کے دوسرے گورنر سردار عبدالرب نشتر(مرحوم) کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنہوں نے اپنے ہم عصر بھارتی وزیر کو پاکستان کو گالی دینے پر دورانِ میٹنگ تھپڑ رسید کر دیا تھا اور مدتوں تک جنہیں پاکستان کے عوام نے ان کی جذبۂ حب الوطنی کو سراہا۔ویسے ایک زمانے میں سابق مردِ حُرجناب آصف علی زرداری کی مونچھوں کا بھی تذکرہ زبان زدِعام رہا ہے ۔ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ایک دفعہ ان کے برادرِ نسبتی میرمرتضیٰ بھٹو شہید نے انکی مونچھ کاٹ دی جس سے سابق صدر اور پی پی پی کے موجودہ شریک چیئرمین بددل ہوئے کہ پھر کبھی مونچھیںنہیں رکھیں مگر میرمرتضیٰ بھٹو کیساتھ جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ آج آصف علی زرداری کے تینوں بچے بھٹو خاندان کی لیگیسی انجوائے کر رہے ہیں۔ہاں یاد آیا گوجرانوالہ شہر سے گزرتے ہوئے سیالکوٹی دروازے کے قریب جی ٹی روڈ کے سنگل ٹریفک حوالدار اپنی مونچھوں سے ٹریفک کو کنٹرول کرتا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے نئے چیئرمین ایف بی آر کا تقرر کیا، نئے چیئرمین شبرزیدی اپنے پیشے اور مہارت سے زیادہ اپنی مونچھوں کی وجہ سے مشہور ،ہم بائیس کروڑ پاکستانی دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی مونچھوں کے زور پر پاکستان کی نڈھال معیشت کو سہارا دیں اور گذشتہ روز جس طرح انہوں نے ایمنسٹی سکیم سے نئے ٹیکس فائلرز کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ کیا ہے ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنی مونچھوں کے طلسم سے پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دیں گے۔ قارئین! سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے میری ملاقاتیں تواتر سے ہوتی رہیں ہم ایک امن پروگرام کے لیے ایک مشن پر کام کر رہے تھے۔ ایک دن مجھ سے میاں شہبازشریف صاحب کہنے لگے کہ آپ مسلم لیگ ن کو جوائن کر لیں اور کل صبح ہمارے دوست رانا ثناء اللہ صاحب جواس وقت وزیرقانون اور وزیر داخلہ پنجاب تھے انکے ساتھ اکٹھا بیٹھ کر پریس کانفرنس کر دوں۔ میں نے انہیں جواب دیا میاں صاحب آپکی محبت کا شکریہ مگر میں آپکی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا۔ قارئین!اس واقعہ سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ نامور اینکر پرسنز اور میرے انتہائی قریبی دوست محترم مبشر لقمان صاحب نے ایک دن مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور جی او آر کے قریب ایک کوٹھی میں داخل ہو گئے اور میرے استفسار پر بتایا کہ یہ صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ کی رہائش ہے اور میں تمہیں ان سے ملانے کے لیے لایا ہوں۔ میں نے رانا صاحب کی پیش کشوں کو شکریئے کے ساتھ ٹھکرا دیا بعدازاں مبشر لقمان صاحب مجھے کہنے لگے انکار کی وجہ کیا ہے تو میں نے انہیںمختصر سا جواب دیا کہ یہ بندہ اور یہ مونچھیںمجھے دونوںہی پسند نہیں اور میں فیصلے دل سے کرتا ہوں عقل سے نہیں اور آج اتنے سال بعد رانا ثناء اللہ کی گرفتاری پر ہونے والے تبصرے پڑھ کر میں آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر یہ سوچتا ہوں کہ کیا رانا ثناء اللہ کے متعلق میرا موقف درست تھا؟ اور میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے اس دور میں عقل کی بات مانی ہوتی تو آج میں خدانخواستہ رسوا ہو کر اپنے بچوں کو بھی منہ دکھانے کے بھی قابل نہ رہتا۔قارئین! میرے اکثر دوست مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ جس پارٹی یا دھڑے کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ جب اقتدار میں آتا ہے تو آپ کسی نہ کسی بہانے ان سے علیحدگی اختیار کیوں کر لیتے ہیں۔میرا ایک ہی مخصوص جواب یہ ہوتا ہے کہ میرا یقین ہے، اللہ رب العزت مجھ سے ان کاموں سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے اور میں اپنے رب کے حضور چھوٹی موٹی چوَل مار کر اور ایک داغدار شخص کے طور پر پیش نہیں ہونا چاہتا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے میں نے اپنے جیسے مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقے کو ساتھ لے کر پنجاب کی پہلی سیاسی پارٹی یعنی ’’پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی ہے۔ میرے نگینوں جیسے دوست احمد رضا وٹو، پروفیسر جٹالہ صاحب، میاں آصف، خلیل اوجلہ صاحب اور ہمارے پنجابی شاعر بابا نجمی صاحب اور سینیئر فنکار راشد بھائی اور مدثر اقبال بٹ صاحب کو ساتھ لے کر پنجاب کی جڑوں سے محبت کے پھول اگائیں گے ۔ہم کسی بھی قسم کے صوبائی تعصب سے بالاتر ہو کر اپنے سرائیکی، پوٹھوہاری، ملتانی بھائیوں کو انشاء اللہ مایوس نہیں کریں گے۔ علم فضل کو لے کر محبت بھرے اس کارواں کا سفر جاری و ساری ہے۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024