مودی صاحب! ایک تصویر سے اوپر اُٹھ کر سوچیں!

سینتیس سالہ شروتی سیٹھ بھارت کی ایک سلجھی اداکارہ ہے،عامر خان کی فلم ’’فنا‘‘ سمیت آٹھ فلموں اور متعدد ٹی وی سیریل میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے علاوہ شروتی کئی ٹی وی ٹاک شوز کی میزبانی بھی کرچکی ہے، شروتی کے تیز اور فی البدیہہ جملے ہی دراصل اُسکے پروگراموں کی جان سمجھے جاتے ہیں، لیکن اِ سی جملے بازی نے گزشتہ دنوں شروتی کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا۔ بھارتی وزیر اعظم کی ’’سیلفی‘‘ بنانے کے جنون میں مبتلا ہونے کی لت پر شروتی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہلکا پھلکا تبصرہ کیا کیا کہ شروتی کو لینے کے دینے پڑ گئے۔گزشتہ ماہ 28 جون کی صبح اسقاط حمل کے خلاف وزیراعظم مودی کی زیر سرپرستی شروع کی جانے والی مہم Selfi With Daughter پر یہ تبصرہ شروتی کی فاش غلطی ثابت ہوا۔ شروتی نے بھارتی وزیر اعظم مودی کو Selfie Obsesed (سیلفی سے بہت زیادہ متاثر ہونے والا شخص ) قرار دیتے اِس طرح کی نوٹنکی کے بجائے اصلاحات کرنے کیلئے کہا تھا۔اِس تبصرے کے بعد شروتی کو اِس قدر زیادہ دھمکی آمیز اور نفرت انگیز پیغامات ملے کہ شروتی کو اپنی سانسیں تک بند ہوتی محسوس ہونے لگیں۔ اِس ساری صورتحال نے شروتی کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ٹوئٹر پر کھلا خط لکھنے پر مجبور کردیا۔اِ س خط میں شروتی نے لکھا کہ ’’میں یہ خط وزیراعظم مودی کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے نام لکھ رہی ہوں، کیونکہ کسی ایک شخص کو سوا ارب لوگوں کی فکر کو تبدیل کرنے کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا،تبدیلی اُسی وقت آ سکتی ہے جب انفرادی سطح پر بیداری آئے۔جس شخص (مودی) کو تبدیلی کا نیا دور لانے والا کہا جا رہا ہے، میں اس سے ایسی چھوٹی اور سطحی مہمات کی نہیں بلکہ کچھ ٹھوس اقدامات کرنے کی امید کرتی تھی، لیکن میں نے اس سے بھی بڑی غلطی اپنے خیالات کو ٹوئٹر پر سامنے لا کر کی اس لیے میں نے نہ صرف سوچنے کی ہمت کی بلکہ اپنے خیالات کو عوامی سطح پر پیش کرنے کی ہمت بھی کی لیکن اسکے نتیجے میں، شیکسپیئر کے الفاظ میں ’’مجھ پر جہنم کے دروازے کھل گئے‘‘۔
تو یہ ہے مہان بھارت کا وہ روپ، عورت کی ایک تنقید پر وہ طوفان بدتمیزی مچا کہ الامان الحفیظ! جو بھارتی چند منٹ پہلے اپنی بیٹیوں کے ساتھ سیلفی پوسٹ کر رہے تھے وہ اگلے ہی لمحے شروتی کے بارے میں اشتعال انگیز اور ناشائستہ باتوں کی انتہا پر پہنچ گئے۔ شروتی سے پوچھا گیا کہ اُسے اپنے اصلی باپ کا نام پتہ ہے یا نہیں؟ شروتی سے استفسار کیا گیا کہ کہیں بچپن میں اُس کا جنسی استحصال تو نہیں ہوا جس کے سبب وہ ’’سیلفی ود ڈاٹر‘‘ کی مخالفت کر رہی ہے؟شروتی سے ہزاروں ’’ری ٹویٹ‘‘ میں پوچھا گیا کہ کیا وہ طوائف ہے اور کیا وہ اپنی بیٹی کو بھی طوائف بنانا چاہتی ہے؟وہ سب جو 48 گھنٹوں تک شروتی کے پیچھے پڑے رہے ، اُن میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہ سوچا کہ آخر شروتی بھی کسی کی بیٹی ہے، کسی نے یہ نہ سوچا کہ اگر ٹویٹ کرنیوالے کی اپنی بیٹی یا بہن کیساتھ یہ سلوک ہوتا تو اُسے کیسا لگتا؟ اس معاملے کو دس روز گزر چکے اور اُسکے بعد یہ معاملہ سوشل میڈیا کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی آچکا،اس ایشو پر سینکڑوں کالم اور مضامین لکھے جاچکے اور بیسیوں پروگرام بھی پیش کیے جاچکے لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو کجا کسی وزیر یا حکومتی نمائندے کو بھی اِس پر معذرت ، مذمت ، تنقید یا شرمندگی ظاہر کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔
بھارت میں انسانیت کیخلاف نفرت کی یہ وہ فصل ہے جسکے بیج گزشتہ سات دہائیوں سے بوئے جارہے تھے لیکن اس نفرت کی سب سے بھیانک تصویر مقبوضہ کشمیر میں دیکھی جاسکتی ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ تقسیم برصغیر سے بھی پرانی ہے، لیکن 1990ء میں بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کش اختیارات دینے کا قانون سب سے مکروہ قانون ہے۔ اس قانون کے تحت فوج کو کسی بھی شخص کو بغیر وجہ بتائے برسوں تک عقوبت خانوں میں رکھنے اور کسی شخص کو بھی دہشت گرد قرار دیکر موقع پر گولی مارنے کا اختیار حاصل ہے۔ بہتری اور بھلائی کی امید میں جتنے لوگوں نے آج تک بھارت میں انسانی حقوق کے حق میں آواز اٹھائی ، اُنکے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو محض ایک ٹویٹ کی پاداش میں شروتی کے ساتھ کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر میں لاگو اِس سیاہ قانون کبخلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسا ادارہ بھی چیخ اٹھا ہے اور بھارت سے اِس انسانیت کش قانون کو ختم کرنے اور اِس انسانیت کش قانون کے تحت اب تک ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مکمل تفتیش کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جو مطالبہ کیا ہے اس سے کہیں بڑھ کر مکمل تفتیش اور تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے کہ وادی جنت نظیر مقبوضہ کشمیر میں ربع صدی سے نافذالعمل اِس کالے قانون کے نتیجے میں کشمیر میں کتنے گھر تباہ ہوئے؟ کتنے خاندان برباد ہوکر رہ گئے؟ کتنی خواتین بیوائیں ہوئیں اور کتنے سہاگ بسنے سے پہلے ہی اجڑ گئے؟ کتنے بیٹے اور بیٹیاں یتیم ہوئیں؟ کتنی عزتیں تار تار اور سر عام نیلام و پامال ہوئیں؟ کتنی مائیں اپنے جگر گوشوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئیں؟ اور حق کی صدا بلند کرنے والی کتنی گردنیں اس کالے قانون کی آڑ میں کاٹ ڈالی گئیں؟
ہونا تو یہ بھی چاہیے کہ بھارتی سرکار نے پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے جو الاؤ بھڑکا رکھے ہیں، ناصرف یہ کہ انہیں بجھایا جائے بلکہ گزشتہ سات دہائیوں میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی تمام کارروائیوں کی مکمل تحقیقات اور تفتیش کی جائے۔ مشرقی پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنوانے میں تو بھارتی وزیراعظم اپنا جرم قبول کرہی چکے ہیں، لیکن اب کراچی ، فاٹااور بلوچستان کے حالات بگاڑنے میں بھارتی کردار سامنے آنے پر اقوام عالم کو چاہیے کہ بھارت کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے! پاکستان توڑنے میں کردار ادا کرنے پر نریندرا مودی کا اعتراف اور اب ایم کیو ایم کو فنڈنگ کے سلسلے میں’’را‘‘ کے سابق بھارتی چیف کے اعتراف کے بعد بھی کیا کسی ثبوت کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ اور اگر بھارتی قیادت کے سنگین جرائم کے تمام ثبوت موجود ہیں تو پھر عالمی عدالت اور اقوام عالم ابھی تک خاموش کیوں ہیں؟ آخر کشمیریوں کی آہ و بقا پر لبیک کہنے کیلئے عالمی ضمیر کو کس چیز کا انتظار ہے ؟
قارئین کرام!! شروتی کے ساتھ جو کچھ بیتی سو بیتی لیکن جملے باز شروتی پھر باز نہ آئی اور ہزاروں کتابوں کے علم پر بھاری جملہ کہہ ڈالا۔ شروتی نے کہا کہ ’’میں نے اپنے ٹویٹ میں جو کچھ کہا تھا ، اُس پر قائم ہوں اور اس کا اعادہ بھی کرتی ہوں کہ سیلفی سے تبدیلی نہیں آتی ہے، تبدیلی اصلاحات سے آتی ہے!‘‘ اس ساری صورتحال میں بنگلہ دیش بنوانے کا برملا اعتراف کرنیوالے یہی بھارتی وزیراعظم اب پاکستان میں دہشتگردی کی آگ بھڑکا کر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کی نظر میں اس ملاقات کا ایجنڈا بھی ایک ’’سیلفی‘‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔جب دنیا کی سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ کا سربراہ سیلفی سے زیادہ کا وژن نہ رکھتا ہوتو پھر ایسے میں میاں نواز شریف کو سوچنا ہوگا کہ محض ملاقاتوں سے کیا حاصل؟ وزیراعظم نواز شریف کو کھل کر بھارتی وزیراعظم کو بتانا چاہیے کہ ’’دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تبدیلی محض سیلفی سے نہیں آئیگی، بلکہ یہ تبدیلی اُس وقت آئیگی، جب بھارت دل سے پاکستان کا وجود تسلیم کرلے گا، یہ تبدیلی اُس وقت آئیگی جب بھارتی قیادت اپنے رویے میں اصلاح کریگی ، اگر آپ خطے میں حقیقی امن چاہتے ہیں تو پھر مودی صاحب! ایک تصویر سے اوپر اُٹھ کر سوچیں!‘‘

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...