مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا 44واں یوم وفاتآج عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے اور میں سوچ رہا ہوں جناب مجید نظامی اور ان کی سرپرستی میں چلنے والے کچھ ادارے نہ ہوتے تو مادر ملت کی یادوں کے چراغ بھی اب تک بجھ چکے ہوتے جیسے ہمارے کئی قومی ہیروز کی یادوں کے چراغ بجھ چکے ہیں اور اب ہمیں یاد ہی نہیں کس کس نے اس ملک کے لئے کیسی کیسی قربانیاں دیں۔ نئی نسل تو خالق پاکستان کو بھولتی جا رہی ہے ان کا دست و بازو بنے رہنے والی ان کی بہن کو یاد رکھنا تو دور کی بات ہے۔ ایسے میں جناب مجید نظامی کا حکمرانوں خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے کیا جانے والا یہ مطالبہ بڑا جائز ہے کہ پاکستان اور پاکستان بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والی شخصیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اور مواد نصاب میں شامل ہونا چاہئے۔ اس لئے بھی کہ جو قومیں اپنی تاریخ اور ہیروز کو فراموش کر دیتی ہیں تاریخ میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں اور پھر یہ نصاب بھی پورے ملک میں ایک ہو۔ پاکستان آج تک ترقی نہیں کر سکا تو اس کی بنیادی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ تعلیمی معاملات کو ہم نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جس ملک میں غریب کے لئے نصاب اور ہو امیر کے لئے اور ہو اس کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ دنیا کا مقابلہ کرے گا بہت ہی کم فہمی کی بات ہے۔ جب تک پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم اور نصاب رائج نہیں کئے جاتے ملک ترقی کی اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتا جس کا خواب دیکھتے ہوئے قائداعظمؒ نے ایک علیحدہ مملکت کی بنیاد رکھی۔
سو ہم جناب مجید نظامی سے یہ گزارش کرتے ہیں نظریہ۔ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے ایک آواز یہ بھی اٹھائیں کہ پورے ملک میں کم از کم تعلیم کے حوالے سے امیر اور غریب کا فرق مٹا دیا جائے۔ دولت مندوں اور غریبوں کے لئے ایک ہی نصاب ہو اور اس نصاب میں پاکستان اور پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والی شخصیات کے حوالے سے اتنا مواد موجود ہو کہ کوئی دادا اگر اپنے پوتے کو بتائے کہ قائداعظمؒ بہت بڑے لیڈر تھے تو پوتا جی کو آگے سے یہ نہ پوچھنا پڑے کہ شاہ رخ خان سے بھی بڑے لیڈر تھے؟“ مجھے یقین ہے نظریہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی یہ آواز حکمرانوں کے کانوں تک ضرور پہنچے گی اور اگر اس آواز کو حسب معمول حسب روایت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے انہوں نے نہ نکالا تو یہ ان کا ایسا کارنامہ ہو گا جسے نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ اس کی بنیاد پر کم از کم تعلیمی انقلاب ضرور برپا ہو جائے گا جس کے نتیجے میں پھر کوئی بھارتی دانشور یہ کہنے کی جرات بھی نہیں کرے گا کہ ”1947ءمیں برصغیر کے مسلمان ایک قوم کی طرح تھے جنہیں ایک ملک کی ضرورت تھی، پھر قائداعظمؒ جیسا لیڈر پیدا ہوا جس نے ایک ملک بنا دیا۔ اب پاکستان ایک ملک ہے جسے ایک قوم کی ضرورت ہے“ اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان بنانے کے لئے جو جدوجہد کی، جو قربانیاں دیں ان سے اس نوجوان نسل کو روشناس کروانے کی اشد ضرورت ہے جو محنت اور جدوجہد کرنے کے جذبوں سے دی ہے اور ”شارٹ کٹس“ پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ قائداعظمؒ نے جس محنت اور جدوجہد سے ملک بنایا تھا اسی محنت اور جدوجہد سے اب ملک بچانے کی ضرورت ہے اور یہ کام نوجوان نسل اپنے قومی ہیروز کی جدوجہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بزرگوں کی رہنمائی میں آسانی سے کر سکتی ہے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے حکمران ”پارٹی ہیروز“ کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تو بہت سی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں مگر قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یا ان کی یاد منانے کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں مجھے یقین ہے قومی اداروں کو بے وقار کرنے کی کوششوں میں مصروف حکمران مادر ملت کے یوم ولادت کے موقع پر بھی سرکاری سطح پر کسی تقریب کا اہتمام اس لئے نہیں کریں گے کہ ایسے ”فضول کاموں“ سے انہیں کوئی ”منافع“ نہیں ہوتا جبکہ ان کی ساری توجہ ان دنوں محض ”منافع بخش سکیموں“ پر ہے۔ سو ان حالات میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا دم بڑی غنیمت ہے اور یہ بھی شکر ہے کہ اس ادارے کو مجید نظامی جیسی جرات اور حوصلہ مند شخصیت کی سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے سرکار کو اس کے معاملات میں مداخلت کی جرات ذرا کم ہی ہوتی ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی کہ یہاں قائداعظمؒ کے بعد کوئی قائداعظم پیدا نہ ہوا نہ فاطمہ جناح کے بعد فاطمہ جناح۔ ہوتے تو آج ہم اس حال میں ہرگز نہ ہوتے کہ کوئی ہماری حالت پر رو رہا ہے تو کوئی ہنس رہا ہے!
سو ہم جناب مجید نظامی سے یہ گزارش کرتے ہیں نظریہ۔ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے ایک آواز یہ بھی اٹھائیں کہ پورے ملک میں کم از کم تعلیم کے حوالے سے امیر اور غریب کا فرق مٹا دیا جائے۔ دولت مندوں اور غریبوں کے لئے ایک ہی نصاب ہو اور اس نصاب میں پاکستان اور پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والی شخصیات کے حوالے سے اتنا مواد موجود ہو کہ کوئی دادا اگر اپنے پوتے کو بتائے کہ قائداعظمؒ بہت بڑے لیڈر تھے تو پوتا جی کو آگے سے یہ نہ پوچھنا پڑے کہ شاہ رخ خان سے بھی بڑے لیڈر تھے؟“ مجھے یقین ہے نظریہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی یہ آواز حکمرانوں کے کانوں تک ضرور پہنچے گی اور اگر اس آواز کو حسب معمول حسب روایت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے انہوں نے نہ نکالا تو یہ ان کا ایسا کارنامہ ہو گا جسے نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ اس کی بنیاد پر کم از کم تعلیمی انقلاب ضرور برپا ہو جائے گا جس کے نتیجے میں پھر کوئی بھارتی دانشور یہ کہنے کی جرات بھی نہیں کرے گا کہ ”1947ءمیں برصغیر کے مسلمان ایک قوم کی طرح تھے جنہیں ایک ملک کی ضرورت تھی، پھر قائداعظمؒ جیسا لیڈر پیدا ہوا جس نے ایک ملک بنا دیا۔ اب پاکستان ایک ملک ہے جسے ایک قوم کی ضرورت ہے“ اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان بنانے کے لئے جو جدوجہد کی، جو قربانیاں دیں ان سے اس نوجوان نسل کو روشناس کروانے کی اشد ضرورت ہے جو محنت اور جدوجہد کرنے کے جذبوں سے دی ہے اور ”شارٹ کٹس“ پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ قائداعظمؒ نے جس محنت اور جدوجہد سے ملک بنایا تھا اسی محنت اور جدوجہد سے اب ملک بچانے کی ضرورت ہے اور یہ کام نوجوان نسل اپنے قومی ہیروز کی جدوجہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بزرگوں کی رہنمائی میں آسانی سے کر سکتی ہے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے حکمران ”پارٹی ہیروز“ کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تو بہت سی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں مگر قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یا ان کی یاد منانے کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں مجھے یقین ہے قومی اداروں کو بے وقار کرنے کی کوششوں میں مصروف حکمران مادر ملت کے یوم ولادت کے موقع پر بھی سرکاری سطح پر کسی تقریب کا اہتمام اس لئے نہیں کریں گے کہ ایسے ”فضول کاموں“ سے انہیں کوئی ”منافع“ نہیں ہوتا جبکہ ان کی ساری توجہ ان دنوں محض ”منافع بخش سکیموں“ پر ہے۔ سو ان حالات میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا دم بڑی غنیمت ہے اور یہ بھی شکر ہے کہ اس ادارے کو مجید نظامی جیسی جرات اور حوصلہ مند شخصیت کی سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے سرکار کو اس کے معاملات میں مداخلت کی جرات ذرا کم ہی ہوتی ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی کہ یہاں قائداعظمؒ کے بعد کوئی قائداعظم پیدا نہ ہوا نہ فاطمہ جناح کے بعد فاطمہ جناح۔ ہوتے تو آج ہم اس حال میں ہرگز نہ ہوتے کہ کوئی ہماری حالت پر رو رہا ہے تو کوئی ہنس رہا ہے!