’’پھر کیا کرتے ہو‘‘ اس سوال کے جواب میں مَیں نے کالم نگار ہونے کا بتایا تو وہ باقاعدہ مرعوب ہو گیا اور کہا پھر بڑے پرستار ہوں گے آپ کے۔ وزیراعظم‘ صدر‘ گورنر‘ وزیر اعلیٰ اور بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں سے علیک سلیک ہو گی‘ ان کے دفتروں میں جب چاہو چلے جاتے ہوں گے۔‘‘ اس کے منہ سے پہلی بار اپنے لئے آپ کا لفظ سُنا تو کچھ طمانیت سی محسوس ہوئی اور جو کچھ وہ کہہ رہا تھا سُن کر تفاخر سے سر تھوڑا بلند ہو گیا۔ ’’میری بیوی بھی کہتی تھی کہ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو میں بھی کالم نگار یا فنکار لگ جاتا اور پرستاروں کی لائن لگی رہتی‘‘ وہ بات جاری رکھے ہوئے تھا تو ڈرائیور نے ایک اور قیامت خیز بریک لگا دی۔ میں نے باتونی ساتھی سے کہا اب بیوی کے لئے لفظ بیوہ استعمال کرنا اس ڈرائیور کا کچھ پتہ نہیں کہ ہمیں کہاں پہنچا کر دم لے۔ بہرحال پرستاروں کا اس نے کہا تو مجھے ساتھی کالم نگار یاد آ گئے جو تحائف کی وصولی کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ کئی کالم نگار اور صحافی تو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وزیر اور مشیر بنتے دیکھے ہیں۔حسرت یہی رہتی ہے کہ ہمارا بھی کوئی پرستار ہو جو ہماری خدمت کرے لیکن یہاں چکر الٹا ہے۔ جس روز کالم لگتا ہے شیخ صاحب کریانے والے مجھے گھر سے نکلتے ہی مبارکباد دیتے ہیں۔ انہوں نے خود اخبار نہیں لگوایا وہ اخبار فروش سے میرا اخبار لے کر کام کی خبریں دیکھنے کے بعد میرے گھر پھینک دیتے ہیں۔ کیا کالم لکھا ہے کمال کر دیا مزا آ گیا‘ چل چھوٹے اسی خوشی میں دو چائے لے کر آ۔ چائے آنے سے قبل دو بوتلیں کھولتے ہیں ایک اپنے لئے دوسری میرے لئے۔ چائے آنے پر فروٹ کیک بھی مبارکباد کا حصہ بن جاتا ہے جس پر ان کا حق زیادہ ٹھہرتا ہے۔ آخر میں رجسٹر اٹھا کر خرچہ میرے کھاتے میں لکھ کر کہتے ہیں ’’خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘
پرستار
Jul 09, 2009
’’پھر کیا کرتے ہو‘‘ اس سوال کے جواب میں مَیں نے کالم نگار ہونے کا بتایا تو وہ باقاعدہ مرعوب ہو گیا اور کہا پھر بڑے پرستار ہوں گے آپ کے۔ وزیراعظم‘ صدر‘ گورنر‘ وزیر اعلیٰ اور بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں سے علیک سلیک ہو گی‘ ان کے دفتروں میں جب چاہو چلے جاتے ہوں گے۔‘‘ اس کے منہ سے پہلی بار اپنے لئے آپ کا لفظ سُنا تو کچھ طمانیت سی محسوس ہوئی اور جو کچھ وہ کہہ رہا تھا سُن کر تفاخر سے سر تھوڑا بلند ہو گیا۔ ’’میری بیوی بھی کہتی تھی کہ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو میں بھی کالم نگار یا فنکار لگ جاتا اور پرستاروں کی لائن لگی رہتی‘‘ وہ بات جاری رکھے ہوئے تھا تو ڈرائیور نے ایک اور قیامت خیز بریک لگا دی۔ میں نے باتونی ساتھی سے کہا اب بیوی کے لئے لفظ بیوہ استعمال کرنا اس ڈرائیور کا کچھ پتہ نہیں کہ ہمیں کہاں پہنچا کر دم لے۔ بہرحال پرستاروں کا اس نے کہا تو مجھے ساتھی کالم نگار یاد آ گئے جو تحائف کی وصولی کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ کئی کالم نگار اور صحافی تو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وزیر اور مشیر بنتے دیکھے ہیں۔حسرت یہی رہتی ہے کہ ہمارا بھی کوئی پرستار ہو جو ہماری خدمت کرے لیکن یہاں چکر الٹا ہے۔ جس روز کالم لگتا ہے شیخ صاحب کریانے والے مجھے گھر سے نکلتے ہی مبارکباد دیتے ہیں۔ انہوں نے خود اخبار نہیں لگوایا وہ اخبار فروش سے میرا اخبار لے کر کام کی خبریں دیکھنے کے بعد میرے گھر پھینک دیتے ہیں۔ کیا کالم لکھا ہے کمال کر دیا مزا آ گیا‘ چل چھوٹے اسی خوشی میں دو چائے لے کر آ۔ چائے آنے سے قبل دو بوتلیں کھولتے ہیں ایک اپنے لئے دوسری میرے لئے۔ چائے آنے پر فروٹ کیک بھی مبارکباد کا حصہ بن جاتا ہے جس پر ان کا حق زیادہ ٹھہرتا ہے۔ آخر میں رجسٹر اٹھا کر خرچہ میرے کھاتے میں لکھ کر کہتے ہیں ’’خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘