ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کیلئے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان گذشتہ سال 2024کے آخری ماہ کی 23 تاریخ کو شروع ہونے والے مذاکرات تاحال کسی منطقی انجام کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دیتے البتہ حکومت ان مذاکرات کے ذریعے احتجاجی سیاست میں ایک ٹھہراؤلانے میں کامیاب ہوچکی ہے جبکہ پی ٹی آئی بھی کسی احتجاج کی کال کاسوچتی نظر نہیںآرہی۔ حکومتی اور اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹیوں کے مابین مذاکرات کے 2 دور ہوچکے ہیں بظاہر لگتاہے کہ ان دو مذاکراتی جلاسوں میں پی ٹی آئی کچھ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر مذاکراتی کمیٹیاں کسی بات پر اتفاق کرتی ہیں تو بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کون دے گا ؟اورپی ٹی آئی کو حکومت کی ضمانت کون دے گا؟گزشتہ دنوں سے حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات کی تیسری بیٹھک کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں زور پکڑنے لگی ہیں، حکومت نے تحریری مطالبات پیش کرنے کی شرط رکھی تھی تو دوسری طرف پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم بانی سے ملاقات کی منتظر ہے۔پی ٹی آئی رہنماؤں کو ملاقات کی اجازت کی راہ میں بھی خاصی مشکلات دکھائی دے رہی ہیں،پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر علی ظفر نے گزشتہ روز واضح کردیا تھا کہ یقین دہانی کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرائی گئی، جس کے بعد مذاکراتی عمل رک گیا ہے ۔
دوسری جانب وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنااللہ نے کہناتھا کہ مذاکراتی کمیٹی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اجلاس کی تاریخ کااعلان ہوگا۔پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ اگر ملاقات نہیں ہوتی تو مذاکرات جاری نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی ائی سے ملاقات کے بغیر مطالبات تحریری طور پر نہیں دیے جا سکتے۔بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ملاقات اس لیے ضروری ہے کہ تحریری طور پر مطالبات مانگے گئے ہیں اور عمران خان سے ملاقات ہونے تک تحریری طور پر مطالبات نہیں دیئے جا سکتے۔انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل کمیٹی کی عمران خان سے ملاقات ضروری ہے۔ دھرنے کی کال ابھی نہیں دی۔ چونکہ مذاکرات شروع ہوئے تھے اس لیے بانی پی ٹی آئی نے ڈیڈ لائن دی تھی۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ مذاکرات جاری نہ رہے توکچھ بھی ہو سکتا ہے۔
حالات اور پی ٹی آئی قیادت کے بیانات میں تضادات سے بھی لگتاہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما تحریری مطالبات دینے کے حق میں ہیں سینیٹر حامد خان نے کہا ہے کہ تحریری مطالبات دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن پارٹی کو خدشہ ہے کہ حکومت ان کے تحریری مطالبات کاغلط استعمال کرسکتی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف قیادت ابہام کاشکار ہے واضح فیصلہ نہیں کرسکتی کیونکہ فیصلہ کرنے کا اختیار مذکراتی کمیٹی کی بجائے عمران خان کے پاس ہے۔پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور 23 دسمبر کو ہوا تھا جس میں حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے تقریباً تمام اراکین اس اجلاس میں موجود تھے ۔جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے صرف تین اراکین اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس شامل ہوئے تھے۔پی ٹی آئی کے دیگرارکان عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، حامد خان اور صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپورکمیٹی کے پہلے اجلاس میں شامل نہیں تھے۔پہلے اجلاس کے اعلامیے میں دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے دوسرامذاکراتی اجلاس دو جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا تھا جس میں حزب اختلا ف نے اپنے مطالبات تحریری صورت میں حکومت کو دینے کا کہا گیالیکن پی ٹی آئی ایساکرنے سے گریزاں ہے دو جنوری کو دوسرے اجلاس میں پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات تو پیش نہیں کئے تاہم مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
مذاکرات کے آغاز سے قبل پی ٹی آئی کے چار مطالبات سامنے آئے تھے جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی بحالی،چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل تھے۔ دوجنوری کے دوسرے اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں پی ٹی آئی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب خان اور دیگر اراکین نے تفصیل سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سمیت پارٹی کے لیڈرز اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیااور کہا حکومت کو ضمانتوں کے حصول میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشنل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تا کہ حقائق پوری طرح سامنے آسکیں۔اعلامیہ میں کہا گیا تھاکہ پی ٹی آئی کمیٹی نے آگاہ کیا کہ تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کرنے کے لئے ہمیں اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات ، مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کیونکہ عمران خان نے یہ مذاکراتی عمل شروع کرنے کی اجازت دی ہے لہذا اسے مثبت طریقے سے جاری کرنے کے لئے ان کی ہدایات بہت ضروری ہیں۔پی ٹی آئی کمیٹی نے کہا عمران خان سے مشاورت اور رہنمائی کے بعد اگلی میٹنگ میں چارٹر آف ڈیمانڈ با قاعدہ تحریری شکل میں پیش کر دیا جائے گا۔اعلامیہ کے مطابق حکومتی پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے اسحاق ڈار نے کہا گزشتہ میٹنگ میں کیے گئے فیصلے کے تحت ہمیں توقع تھی پی ٹی آئی تحریری طور پر اپنے مطالبات پیش کرے گی تاکہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں پی ٹی آئی کمیٹی عمران خان سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ ز لائے تاکہ دونوں کمیٹیاں معاملات کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھا سکیں۔اجلاس میں یہ طے پایا تھا کہ پی ٹی آئی کمیٹی کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اگلے ہفتے کے دوران دونوں کمیٹیوں کی تیسری نشست کی تاریخ کا تعین کیا جائے گاحکمران طبقہ اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات مسلسل قومی سیاست پر حاوی ہیں،تاہم مذاکراتی گلیوں میں بھٹکنے والوں کوبندگلی کی طرف جانکلنے کا خوف لاحق ہوگیا اس کے باوجود کچھ نہ کچھ نتیجہ برآمدہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔اس لئے تجزیہ نگار ناقد بھی مجموعی طورپر کچھ اسی طرح کی کڑیاں ملاتے دکھائی دیتے ہیں شاید اب کی بار مذاکراتی بیل منڈے چڑھ جائے اور زیادہ اختلاف بھی نہیں کیونکہ مینڈیٹ کی واپسی، تحقیقاتی کمیشن، معافی تلافی جیسے آئیڈیل مطالبات آنکھوں سے اوجھل ہونے لگے ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی اپنے پرانے ایجنڈے پر سمجھوتہ کرنے پر راضی نظر آتی ہے یعنی جو سیٹ اپ بن گیا یہ کڑوی گولی نگلنے پڑے گی، لگتا ہے کہ ماضی کے بیانیہ کے برعکس مذاکراتی عمل میں مطالبات سے پیچھے ہٹنا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے لیکن ممکنہ خفت مذاکراتی عمل کے آڑے آرہی ہے۔چند روزقبل بانی پی ٹی آئی کے بیان کو لے کر بھی حکومتی ارکان تذبذب کا شکار ہیں اور ناقدین کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کا بیان مذاکرات میں ڈیڈلاک کی جانب لے جا سکتاہے۔
ایسا کیا ہے جسے کہنے سے پی ٹی آئی گریزاں ہے؟
Jan 09, 2025