کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیںجب ان کے متعلق کوئی بھی کتاب ہاتھ آ جائے تو اسے پڑھے بنا چھوڑا نہیں جاسکتا، اسی طرح میرے پاس ایک کتاب ہے ’’اقبال فیض اور ہم‘‘ جس کے مصنف نامور ادیب اور پروفیسر ڈاکٹرمحمدرفیق خان ہیں انکے متعلق ڈاکٹر شفیق عجمی کی مختصر اور جامع رائے انہیں اقبال اور فیض کے سامنے حالت تحیر میں پیش کرتی ہے، ’’ڈاکٹرمحمدرفیق خان صاحب کی تحریر ہویا تقریر اسکے تین بنیادی حوالے ہیں، اقبال، فیض اور گورنمنٹ کالج لاہور، یہ حوالے ان کا فخر بھی ہیں اور ان کا سرمایہ بھی، انہی حوالوں میںوہ جیتے بستے ہیں اور زندگی میں وہ مسلسل آگے بڑھتے رہتے ہیں، ان حوالوں کے ساتھ ان کی دل بستگی اور خلوص اس کتاب کے ورق ورق سے عیاں ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر میں اقبال اور فیض سے مضبوط تعلق اتنا واضح ہے کہ مجھے کتاب پڑھنے کے بعد لگاکہ لوگ اب اقبال اور فیض کے ساتھ ہی ڈاکٹر محمدرفیق صاحب کا نام بھی لیا کریں گے ۔انکی دوستی، محبت اور متاثر ہونے کے عام اجزائے ترکیبی قابل تحسین ہیں، اس کتاب میں ڈاکٹر رفیق صاحب نے نہ صرف اقبال اور فیض کا تقابلی جائزہ لیا ہے بلکہ اس جائزے میں معاشرے کے ان افراد کی تلاش کرنے کی پرزور اپیل کی ہے جو آج کے دور میں کسی دریا میں چھپے سیب میں موتی کی مانند اپنی شعاعیں لپیٹے بیٹھے ہیں کتاب پڑھنے کے بعد راقمہ کو تو ڈاکٹر رفیق کے تخیلات، فلسفہ، جذبات اور نظریات میں وہی تاثر اپنے حجم کے ساتھ کھڑا نظرآتاہے جس نے اقبال اور فیض کو فصیلِ ادب پہ نصب کیا۔ اس حوالے سے ایک اہم نقطہ بیان کردوں کہ ہمارے ہاں اکثر ان تقاریب میں جن کا موضوع نظریہ پاکستان سے ہوتا ہوا نکلتاہے یا سیاست دانوں کے کئے گئے مظالم کو بیان کرتاہے ، زیادہ تر یہی سننے کو ملتاہے کہ ’’ہم میںکوئی حضرت اقبال کیوں نہیں‘‘ ’’ہم فیض کی طرح آزادیِ زباں کا فائدہ اٹھا کر احتجاجی اور سچ کو بے نقاب کرنے کی شاعری کیوں نہیں کرتے‘‘ تو یہاں مجھے بھی ڈاکٹر رفیق کے خیالات سے اتفاق کرنا ہے کہ کیوں نہیں ہم اور ہمارے گرد محب وطن ان گنت افراد ایسے ہیں جو قلم کی نوک سے آج بھی ان تلخ حقائق کے دامن چاک کرتے ہیں، جیسے کہ خود ڈاکٹر رفیق نے ’’دیدہ بینا‘‘ لکھی۔
تونے کبھی یہ سوچا ہے
میں بھی ہوں اس دور کا شاعر
میں بیچارا دکھ کا مارا
نقشِ قدم پر چل کر تیرے
جس منزل پہ آکے کھڑا ہوں
میں بھی تو دیدہ بینا ہوں
پھر لکھا کہ:
قوم سے پہلے تو رویا تھا
قوم بنی تو میں روتا ہوں
فرق بڑا ہے تجھ میں مجھ میں
تیرے وقت کے دکھ تھے جتنے
غیر تھے ان کے دینے والے
میرے دکھ کے دینے والے
دکھ ہے کہ وہ سارے اپنے ہیں
آج کے دور میں ایسے بے شمار استاد گرامی موجود ہیں جو اپنے شاگردوں کے نظریات میں وطن ، محبت، قربانی اور سچائی گُھٹی کی طرح گھول رہے ہیں، اکثر راہ چلتے چھابڑی والا جب یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کیلئے ایک ایک پائی جوڑ رہاہے یا فوجی افسر بنانے کیلئے اسے تربیت دے رہاہے تو وہ اصل میں اقبال، سرسید، علی برادران اور فیض کے حصے کا بقیہ کام انجام دے رہا ہوتاہے۔جس نے ان عظیم شعراء سے محبت کی وہ بھی ان جیسا ہے اس میں انہوں نے شفیق فاروقی شہرہ آفاق مصور کا ذکر بھی کیا جو اقبالؒ کی شاعری کو کینوس پہ جادوئی لکیروں سے منعکس کررہے ہیں۔ ان کے فکر وفن میں ڈوب کر رفیق صاحب نے شفیق فاروقی میں اقبال اور فیض کی روح بولتی سنی، ان کے کلام کو پازیب باندھ کر شفیق فاروقی نے اسکی جھنکار کُوبہ کُو پھیلانے کی کوشش کی، شفیق صاحب کو راقمہ نے عظیم ہستیوں پہ کام کے دوران سسکیوںسے روتے دیکھاہے۔شفیق صاحب کا بیانیہ ڈاکٹر رفیق نے اپنی کتاب میں یوں شامل کیا ہے۔میں تصویروں کو اپنے تاثراتی، مشاہدات اور اپنے جذباتی تجربات سے اخذ کرتا ہوں میں سچائی کو ایک نہ ختم ہونے والا حل سمجھتا ہوں، زندگی کی شباہت مٹی کے ایک بلاک کی طرح ہے جس کی صورت گری اور تبدیلیاں حالات اور روزمرہ کی مخالفتوں، ذاتی، اجتماعی المیات اور شخصی بازپرس کے بعد ہوتی ہے ۔میرا کام اپنی محنت ،کشمکش اور جستجوپہ زندہ ہے اور میںاس وقت تک کام شروع نہیں کرتا جب تک میں احساسات میں گَھر نہیں کرلیتا، کشمش کی یہ کیفیت شعوری حیات کو ممکنہ حد تک منظم کرنے کی ریاضت ومشقت ہے۔شفیق صاحب کی اس بات سے ڈاکٹر رفیق کی کتاب کا اصل موضوع کہ ہم بھی دیدہ بینا ہیں واضح ہوجاتاہے ، ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ قارئین اقبال فیض اور دیگر پاکستان کے وجود کو قائم کرنے اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے جہاں زندگی ہارگئے وہاں سے ڈاکٹر رفیق، شفیق فاروقی، عبدالستار ایدھی، پروفیسر عبادت بریلوی، ڈاکٹر مہدی اور ایسے بے شمار عظیم مفکر، مصور، پروفیسر اور ادیبوں نے یہ فلسفہ اور نظریہ کی رسی کو مضبوطی سے نہ صرف تھاما بلکہ اور بھی طاقتوں کو تھامنے کی جگہ دیتے رہے، جب تک ایسے لوگ اور ڈاکٹر محمدرفیق خان کی سانسیں چلتی رہیں گی ، اقبال، قائد، فیض، سرسید علی برادران، مادر ملت، ہمارے شعلہ جواں اور طالبات زندہ رہیں گے۔
اقبال تیرے شعر ستاروں کی طرح ہیں
یہ شب کے اندھیروں میں شراروں کی طرح ہیں
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38