ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم مسلسل خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ نتائج بھی اچھے نہیں ہیں۔ بالخصوص بیٹنگ کے شعبے میں مایوس کن کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مصباح الحق اور یونس خان کی موجودگی میں یہ شعبہ نسبتا بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتا تھا لیکن ان دونوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹنگ میں کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس حد تک کہ ہمیں متحدہ عرب امارات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنوبی افریقہ میں مسلسل دو ٹیسٹ میچز ہارنے کے بعد ہر کوئی اپنے انداز میں تنقید کر رہا ہے۔ ہوائی جہاز کے پائلٹ سے چنگ چی کے ڈرائیور تک، فیکٹری کے مالک سے ملازم تک، جاگیردار سے ٹریکٹر چلانے والے تک، استاد سے شاگرد تک سب اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ٹیم کی کارکردگی پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ کسی کی نظر میں مکی آرتھر برائی کی جڑ ہے، ہیڈ کوچ کے مختلف معاملات میں بے جا مداخلت نے ماحول بگاڑ دیا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق اور انکی سلیکشن کمیٹی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی، ٹیم کی سلیکشن میں پسند نا پسند شامل ہے، کوئی کہتا ہے کہ کپتان سرفراز احمد کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ قائد کو بدل دیا جائے۔ ان تمام باتوں میں وزن ہے۔ مکی آرتھر اپنے فیورٹس کے ساتھ کھیلنے کے شوقین ہیں اور وہ کھیل رہے ہیں نتائج بھلے کچھ بھی ہوں، انضمام الحق اور انکے ساتھی سلیکٹرز نے اپنے ناپسندیدہ کھلاڑیوں پر سرخ نشان لگایا ہوا ہے کچھ بھی ہو جائے انہیں ٹیم میں شامل نہیں کیا جائے گا۔رہی بات سرفراز احمد کی تو ایک قائد کی حیثیت میں وہ بھی اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ کپتان نہ ہوں تو اس کارکردگی کے ساتھ انکے لیے ٹیم میں رہنا ناممکن ہو جائے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرفراز احمد ناکامی کا اکیلا ذمہ دار ہے؟؟؟؟جنوبی افریقہ کے خلاف ناکامی کی ایک وجہ لیگ سپنر یاسر شاہ اور محمد عباس کا وکٹیں نہ لینا ہے۔ عباس کو فٹنس مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اگر ہم اپنی ماضی کے نتائج پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ دونوں گیند بازوں کی بائولنگ نے ہمارے لیے ٹیسٹ میز جیتے ہیں۔ کسی بھی ٹیم کے اچانک دو اہم گیند باز ان فٹ ہو جائیں یا پھر وکٹیں لینے میں ناکام ہوں تو پھر ٹیسٹ میچ جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے بیس وکٹیں حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے وہ اہم گیند بازوں کے ناکام رہنے کے بعد یہ ہدف حاصل کرنا آسان نہیں رہتا۔سلیکشن میں سمیع اسلم، عثمان صلاح الدین اور عابد علی کو کیوں نظر انداز کیا گیا، مختلف کھلاڑیوں کے سلیکشن کمیٹی کا برتاو مختلف کیوں ہے، اگر یہ کھلاڑی سلیکشن کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو پھر کئی کئی اننگز میں ناکام رہنے والے قومی ٹیم میں کیسے برقرار رہتے ہیں، سمیع اسلم کو تیار کیا گیا پھر بھلا دیا گیا، عثمان صلاح الدین کو سیر کروائی گئی مجبوری میں ٹیسٹ کیپ دی گئی پھر باہر بٹھا دیا گیا، عابد علی کے ہزاروں رنز بھی سلیکٹرز کو متاثر نہ کر سکے لیکن امام الحق کے سینکڑوں رنز فواد عالم کے ہزاروں رنز سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے، فٹنس ٹیسٹ میں ناکام ہونے پر عمر اکمل کو انگلینڈ سے وطن واپس بھیج دیا گیاتو دوسری طرف ان فٹ کھلاڑیوں کو عزت و احترام کے ساتھ جنوبی افریقہ لے جایا گیا۔نہ کسی نے پوچھا، نہ ضرورت محسوس کی گئی، نہ ہی پوچھے جانے کا امکان ہے؟؟؟اب اہم ترین شعبے بیٹنگ کی بات کی جائے، کیا کوئی ٹیم صرف دو بلے بازوں کے ساتھ ٹیسٹ میچ جیت سکتی ہے۔ یقینا بہت مشکل ہے۔ ہمارے پاس پانچ روزہ کرکٹ کے صرف دو مستند بلے باز اظہر اور اسد موجود ہیں، کیا یہ کافی ہیں اور وہ بھی پرفارم نہ کریں تو ٹیم کا حال وہی ہوتا ہے جنوبی افریقہ میں ہو رہا ہے۔اس ٹیم میں ابھی شان مسعود، سرفراز احمد اور دیگر بلے باز رنز سکور کرنا شروع کر دیں ٹیم جیتنا شروع ہو جائے گی۔ ٹیسٹ ٹیم میں سب سے بڑا مسئلہ ٹیسٹ کے ماہر بلے بازوں کا ہے۔ ہمارے پاس ایسے بلے بازوں کا فقدان ہے۔ ٹیم میں پانچ روزہ کرکٹ کے صرف دو ماہر بلے باز اظہر علی اور اسد شفیق ہیں۔ کیا صرف دو بیٹسمینوں سے ٹیسٹ میچ جیتا جا سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38