بدھ ‘ 2؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 9 ؍ جنوری 2019ء
ایران کی کوئٹہ کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی پیش کش
ہمارے پڑوسیوں کو جتنی ہماری فکر ہے اگراس سے آدھی فکر بھی ہم اپنی خود کریں تو شائد ہماری حالت بدل جائے۔ دنیا بھرسے ہمیں اپنے حالات بدلنے کیلئے امداد ملتی ہے۔ فنڈز ملتے ہیں۔ مگر ہم وہ اپنی حالت بدلنے پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے نجی اکائونٹس میں بیرون ملک محفوظ کر دیتے ہیں تاکہ ’’اوکھے سوکھے ویلے‘‘ یعنی برے وقتوں میں کام آئے۔ اب یہ کوئٹہ شہر کی حالت ہی دیکھ لیں جسے دیکھ کر وہاں مقیم ایران کے قونصلر کو ترس آگیا اور اسنے پیش کش کی ہے کہ ان بدحال سڑکوں کی تعمیر و مرمت ہم کردیتے ہیں۔ یہ مقام ڈوب مرنے کا ہے۔ مگر اس مقام سے بہت آگے نکل چکے ہیں اب برادر ایران کی پیش کش پر تو ہمیں بے اختیار علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے…؎
غسال آئیں گے کابل سے
کفن جاپان کا ہوگا
انہوں نے جو منظر کشی کی وہ آج عملاً ہمارے سامنے ہے۔ زوال کے آخری دور کے لکھنوی نوابوں کی طرح ہم کسی کی مدد کے بنا اٹھنے بیٹھنے سے بھی معذور ہو چکے ہیں۔ کوئٹہ کی سڑکوں، گلیوں اور نالیوں کی تعمیر و مرمت کیلئے جو سال سالہا کی بلدیہ اور صوبائی حکومت کروڑوں روپے جاری کرتی ہے وہ کہاں جاتے ہیں۔ نیب ذرا اس طرف بھی نگاہ کرے، اینٹی کرپشن والے کرپشن چھوڑ کر اس طرف بھی دیکھیں تو شاید انہیں بھی نیا کام مل جائے۔ کوئٹہ کے شہر بھی تو آنکھیں اور منہ کھولیں ‘عدالت میں جائیں اور شہر کے وارثوں کو طلب کریں کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔سڑکیں نالیاں گلیاں کیوں بدحال ہیں۔ چھوٹا لندن کیوں فلتھ ڈپو بن چکا ہے۔ خدارا حکمران سی پیک کے اس اہم اکنامک زون والے شہر پر رحم کریں۔
٭٭٭٭
پنجاب کے 36اضلاع میں ماڈل قبرستانوں کیلئے جگہ مختص کردی ہے: علیم خان
یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ہمارے ہاں زندوں کیلئے سوسائٹیاں کالونیاں بنتی ہیں مگر مرنے والوں کیلئے ان میں جگہ مختص کرنے کا کوئی نہیں سوچتا۔ کیا بنانے والوںنے مرنا نہیں ہوتا۔اب شکر ہے کسی وزیر کی نگاہ بھی اس طرف گئی۔ علیم خان نے جس طرح پنجاب کے 36 اضلاع میں ماڈل قبرستان بنانے کیلئے جگہ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے اُمید ہے مرنے والوں کو یعنی (زندہ لوگوں) کو خوشی ہوگی کہ کم ازکم ان کے وصال کے بعد ان کو اپنے آرام دہ آخری ٹھکانے کے سلسلے میںجگہ آسانی سے میسر ہو گی۔ بھٹو دور میں اس وقت کے وزیر جیل خانہ جات ملک حاکمین کے بارے میں مشہور ہے (دروغ برگردن راوی) کہ انہوں نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے نہایت جذباتی اندازمیں کہا تھا کہ ہم پورے پنجاب میں جیلوں کا جال بچھا دینگے۔ اب علیم خان بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہیں یہی عزم نہ کر بیٹھیں۔ اب اگر پنجاب کے سینئر وزیر یہ اچھا کام کر رہے ہیں‘ انہیں مرنے والوں کاآرام کا اتنا خیال آ ہی گیا ہے تو یہ بہت اچھا کام ہے۔ اس کا ثواب بھی انہیں ملے گا۔ اسکے ساتھ ہی صوبے میں موجود قبرستانوں پربھی اگرکام کیاجائے انہیں لینڈ مافیا اور تجاوزات سے چھڑا کر ان کا حقیقی رقبہ بحا ل کیاجائے توانکا یہ کارنامہ بھی مدتوں یاد رہے گا۔ ٹیسٹ کے طور پر میانی صاحب قبرستان حاضرہے جو لاہور میں ہے۔ اس وسیع العریض قبرستان کا نقشہ بدل دیں اسے زندوں کے تسلط سے چھڑائیں تو لاکھوں مردے اورانکے گھروالے انہیں دعائیں دیں گے۔
٭٭٭٭
بھارتی سائنسدانوں نے نیوٹن اور آئن سٹائن کو غلط قرار دیدیا
بھارتی ہمیشہ سے اس خبط میں مبتلا رہتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ انہی کی بدولت ہے۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ صدیوں سے بھارت پر دیگر اقوام نے بزور طاقت حکومت کی۔ اگر یہ قوم اور یہاں کے حکمران اتنے ہی طاقتور اور عقلمند ہوتے تو بھلا ہزاروں میل دور سے رہنے والے لوگ یہاں آ کر راج کیوں کرتے۔ رہی بات دور قدیم کے مہا بھارت، رامائن جیسے قصوں ا ور کہانیوں میں استعمال ہونے والے اسلحہ کی تو وہ تیر کمان نیزے، ڈھال اور رتھ سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ اگر پانڈوں کے پاس واہواستر ، برہم استر، اگنی وان کو خطرناک میزائل مان لیا جائے تو پھر ان کے مقابلے میں کورئوں کے پاس بھی ایسے ہی جدید میزائل تھے۔ جس کا استعمال انہوں کوروکیشتر کے میدان میں مہایدھ یعنی مہا بھارت رچا کر کیا۔ اگر رام جی کے پاس 42 اقسام کے جہاز تھے تو انہوں نے سری لنکا کی اینٹ سے اینٹ کیوں نہ بجا دی۔ الٹا بندروں کی مدد سے وہاں حملہ کیا۔ اگر گرزُ اٹھائے ہنومان نہ ہوتا تو شاید یہ حملہ بھی ناکام ہوتا۔ اب آئن سٹائن اور نیوٹن پر حملہ کر کے ہندو دھرم کو سائنس ثابت کرنے کی کوشش سوائے ایک مذاق کے اور کیا رہ جاتی ہے۔ جس کے خلاف خود بھارت کا پڑھا لکھا طبقہ بھی مظاہرے کر کے ان جعلی دانشوروں کو کوس رہا ہے۔ پوری مہا بھارت اور رامائن میں ہندو بادشاہ اور شہزادے روحانی گروئوں کے پاس پاٹھ شالا جا کر تعلیم حاصل کرتے تھے ابھی تک کوئی ایسی پاٹھ شالا دریافت نہیں ہوئی جہاں کوئی میزائل، توپ یا بندوق بنانے کا کارخانہ دریافت ہوا ہو۔یہ مقناطیسی کشش یا کشش ثقل کی لہروں کو اب مودی کا نام دیںیا گاندھی کا ‘اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ مسلمانوں نے بھی تلوار اور تیر سے ہندوستان جیتا تھا اس وقت یہ جدید اسلحہ کیا بحرہند میںچھپا دیاگیا تھا۔
٭٭٭٭٭
ہم کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مولانا فضل الرحمن
شکر ہے۔ کشمیر کمیٹی کے بوجھ سے نجات کے بعد مولانا کو بھی کشمیر کی یاد آ ہی گئی ہے۔ ورنہ جب تک مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کو گلے کا ہار بنائے بیٹھتے رہے انکے حلق سے کشمیر کا لفظ ہی ادا نہیں ہوتا تھا۔ اب چونکہ مولانا اور ان کی جماعت کو فراغت ہی فراغت ہے۔اب واقعی انہیں چاہئے کہ وہ کشمیریوں کو تنہا نہ چھوڑیں بلکہ پورے بھارت میں جہاں انکے لاکھوں حامی موجود ہیں کشمیر کشمیر کی ایسی گردان دہرائیں کہ ہندوستان والوں کے کان پک جائیں۔ ویسے بھی اس وقت ہندوستان والوں کے دماغ پک چکے ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں گہرے سبز رنگ والے کپڑے کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ رنگ جوامن ا ورسلامتی کا رنگ ہے دیکھ کر بھارتی حکمرانوں اور انتہا پسندوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ مگر صرف کپڑے سے کیا ہو گا۔ مقبوضہ کشمیر تو اس برف کی چادر میں چھپا بھی ہر طرف سبز ہی سبز نظر آتا ہے۔ اسکے جنگل ہرے بھرے اور سدابہارسبزے سے آراستہ ہیں۔ بھارتی حکمران یہ سبز رنگ کیسے مٹا سکیں گے جو قدرتی طور پر ہے۔ ہر قبرستان میں شہدا کی قبروں پر نصب سبز پرچم اسی محبت اور یگانگت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کہیں اس سبز رنگ کومٹاتے مٹاتے خود ہی نہ مٹ جائے۔ اب مولانا فضل الرحمن بھی کشمیر کے حق میں بول اُٹھے ہیں تو بھارت کونوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔
٭٭٭٭