زنگ آلود آسائشوں اور گٹر ملا پانی کبھی ملتا ہے تو کبھی ناراض۔ حال ہی میں حکومت پنجاب کے فرمان کے بعد ہسپتالوں، شادی ہالوں دیگر کمرشل پلازوں کو سپلائی ہونے والے پانی کی قیمت چار پانچ گنا بڑھا دی گئی ہے۔ گٹر ابلتے ہیں مین ہول موت کے کنویں بنے ہوئے ہیں۔ ہر روز واسا کا ایک مالی سکینڈل سامنے آتا ہے۔ جب لوڈ شیڈنگ تھی۔ عوام کے ہمدرد حکمرانوں نے پانی سپلائی بحال رکھنے کے لئے ٹیوب ویلز کو ڈیزل سے چلانے کا فیصلہ کیا۔
افسروں نے ڈونگرے بجائے اور گانا شروع کر دیا۔"ہن تے موجاں ہی موجاں" بعد میں پتہ چلا کہ ڈیزل کے استعمال کی مد میں کروڑوں کا محکمے کو چونا لگا دیا گیا۔وہی بات کہ ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے۔ کیا ہوا واسا میں ہونے والے سینکڑوں سکینڈلز کی طرح یہ فائل بھی سرد خانے میں چلی گئی اب دیکھیں کہ اس الماری کو آگ کا حادثہ کب پیش آتا ہے۔ماضی میں ہزاروں شارٹ سرکٹ کے بہانے نذر آتش کر دیں گئی۔
کیا کبھی کسی پر ذمہ داری ڈالی گئی۔اوپر سے نیچے تک سب کے منہ تو بند ہوتے ہیں کون وجوہات کا پتہ لگائے گا پانی کی پوزیشن یہ ہے کہ بمشکل پہلی منزل پر آتا ہے اب اگر دوسری تیسری منزل کے لئے کوئی موٹر لگائے تو نا اہل واسا کے اہل کار انکا چالان کرتے ہیں۔
کتنے ہزار غیر قانونی کنکشن لوگوں کو دئے گئے ہیں۔ کیوں ان سے بلز نہیں لئے جاتے ہیں۔ غبن اور فراڈ کیوں نہیں روکے جاتے۔ صرف عوام کی کھال کھینچنے کا نسخہ ہی آتا ہے۔اب آئیے اندھیر نگری کی دوسری مثال اخبارات میں ایک سو چو نسٹھ شادی ہالز کے غیر قانونی ہونے اور انکی وجہ سے ٹریفک میں رکاوٹ ہے۔ نیز یہ LDA سے منظور شدہ نہیں ہے۔خرگوش کی بھی آنکھ کھل گئی ہے وجہ سپریم کورٹ کا کراچی کے غیر قانونی شادی ہالوں پر نوٹس اور لاہور میں بھی ایکشن کا خوف بندہ ان عقل کے اندھے اور ہزاروں کا عملا رکھنے والے اداروں سے پوچھے کہ کیا یہ راتوں رات بن گئے ہیں یا سالہا سال سے کیسے کام کر رہے کس کس ڈی جی کے دور میں یہ سب ہوا کیوں ہوا؟۔ کیا مفت ہوا کیا خدا ترسی کرتے ہوئے قانون سلا دیا گیا۔ یا پھر
Money makes theMayor go والی بات ہے۔۔ کیا ان تمام ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کاروائی ہو گی۔ جن کی سرپرستی میں یہ تعمیرات ہوئیں‘کاروبار شروع ہوئے کروڑوں اربوں روپے کمائے گئے۔اور جگہ جگہ حصے پہنچائے گئے یہ قومی المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اب رشوت کو کمیشن کا نام دے دیا گیا ہے۔
ضرورت ہے کہ پہلے LDA کے تمام ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔پھر شادی ہالوں سے نپٹا جائے۔ اور اربوں روپے کی جائیدادوں کو گرانے کی بجائے انہیں جرمانہ کر کے ان ہالوں کام جاری رہنے دیا جائے۔ ملک میں پہلے ہی بے روزگاری، مہنگائی کا زور ہے اس میں اضافہ نہ کریں۔ البتہ انہیں بات پر مجبور کریں۔کہ وہ ٹریفک بلاک نہ ہونے دیں۔آج کل موڈرن کار لفٹس تھوڑی جگہ کا توڑ آئی ہیں۔پچھلے دو ماہ سے پٹرول تھوڑا تھوڑا بڑھایا جا رہا تھا۔ سنار کی ٹھک ٹھک تھی جسے لوگوں نے برداشت کر لیااب کہ لوہار کے ہتھوڑے سے وار ہونے لگا ہے اور سبزیاں، ٹماٹر، پھل اپنی مہنگائی کی جوبن پر ہیں۔ ملاوٹ شدہ اشیاء کے انبار ہیں۔ یہ سب تاجر لوگوں کو ملاوٹ شدہ اشیاء کھلا کر مار رہے ہیں۔اور پھر ہر سال ناجائز کمائی سے بچوں سمیت عمرے پر بھی جاتے نہیں پتہ نہیں کونسا منہ لیکر۔
مرغی کے گوشت کے نرخ بھی چوتھے آسمان تک پہنچا دئے گئے ہیں۔ملک میں مردہ مرغیوں/جنکو"ٹھنڈی ""خاموش "کانام دیا جاتا ہے۔سب کا سوپ شوارمے اور برگر دھڑا دھڑا بک رہے ہیں۔یہ سو روپے کلو ملتی ہے۔مریضوں کے لئے دوائیاں پہنچ سے باہر ہیں ڈاکٹر کے پاس ایک مرض دکھانے جائیں تو وہ کئی کئی ٹیسٹ لکھ دیتا ہے لاکھوں کروڑوں کی آمدن کے باوجود ان کی ہوس ٹھنڈی نہیں ہو رہی۔ مطللب عوامی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کا سانس بند کرنے کی کوشش نہ کی جا رہی ہو۔اس کی وجہ ایک دیسی مثال سے واضح کر دوں گاغالباً 1973 کی بات ہے کہ کنال پارک گلبرک میں میرا گھر زیر تعمیر تھا۔انہیں دنوں میں لاہور میں اپنے بینک کی برانچ کا منیجر تھا۔ اور میرے ساتھ جناب آصف پراچہ ہیڈ کیشئر تھے۔
مکان کی تعمیر کا کام ایک ٹھیکیدار کے ذمہ تھا۔یوں جب مکان کی چار دیواری مکمل ہونے کے بعد چھت ڈالنے کی نوبت آئی تو ٹھیکیدار نے لکڑی کے تختوں سے شٹرنگ شروع کی۔اسی دوران مجھے آصف پراچہ نے بریف کیا کہ تمہارا تجربہ اتنا نہیں میں ٹھیکیداروں کو جانتا ہوں یہ لوگ سستی اور کاہلی کی وجہ سے شٹرنگ مضبوط نہیں ڈالتے نتیجتاً جب لوہے کی جال میں ریت بجری اور سیمنٹ کا مکسچر پڑتا ہے تو بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر کمزور پٹھے نیچے کھسک جاتے ہیں اور یوں چھت میں "کْب" پڑ جاتا ہے جو ساری عمر انسان کو برا لگتا ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ٹھیکیدار کمزور تختوں کا استعمال کرتے ہیں۔اور نیچے "تلیں" (وہ بانس جو نیچے سے تختوں کو سہارا دیتے ہیں) بھی زیادہ کھڑی نہیں کرتے۔آصف نے مشورہ دیا کہ جب ٹھیکیدار کہے کہ اس نے شٹرنگ مکمل کر لی ہے تو اسے کہیے کہ وہ مزدور سے اس پر چھلانگیں لگوائے تاکہ چیک ہو سکے۔کہ تختے مضبوط ہی لگائے گئے ہیں۔آصف چونکہ شیخ پتر تھا اور سیانا بندہ بھی لہٰذا میں نے اس کے دیئے گئے مشورے پر عمل کیا۔ لہٰذا جب ہم چھت پر کٹھرے تھے تو میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا "سناؤ! تختے و ختے مضبوط ہی ہیں نا۔" تو اس نے بہت زوردار انداز سے یقین دلایا کہ سب کچھ تسلی بخش ہے۔
اس پر جب میں نے اسے مزدور سے چھلانگ لگوانے کو کہا تو ٹھیکیدار لال پیلا ہو گیا اور غصے میں آ کر کہنے لگا "بٹ جی! آپ آصف کی بات کو اہمیت دیتے ہیں مجھ پر اعتماد نہیں کرتے۔" ویسے بھی ان دونوں میں مثال ایسی تھی کہ مہمان کو مہمان چبھے اور گھر والوں کو دونوں۔ٹھیکیدار نے فوں فوں کرتے ہوئے اپنے مزدور کو پکارتے ہوئے کہا "اوئے منے ادھر اوپر آزرا ان کو چھلانگیں لگا کر شٹرنگ چیک کروا ان کو ہم سے بڑا انجینئر ملا ہوا ہے جس کا مشورا صاحب سمجھتے ہیں۔خدا کی کرنی دیکھیے کہ مزدور کی پہلی ہی چھلانگ پر پھٹہ ٹوٹا اور مزدور پٹھے سمیت چھت سے نیچے گر گیا۔مجھے تو یوں لگا کہ جیسا اس مزدور کو میری وجہ سے چوٹ لگی۔اب دیکھیئے جیسے ہی یہ واقع ہوا ٹھیکیدار نے با آواز بلند گالی دیتے ہوئے مزدور سے پوچھا "اوئے منے! پھٹہ بچ گیا اے"۔یوں مجھے ٹھیکیدار کے اس عمل پر بڑا غصہ آیا کہ اس میں انسانیت ہی نہیں ہے۔بجائے اس کہ مزدور کا حال احوال پوچھتا کہ کوئی چوٹ تو نہی آئی اسے انسان کے مقابلے میں پھٹے کی فکر زیادہ ہے۔اس پر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے اس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا ستار تمہیں شرم آنی چاہیے وہ بیچارہ چھت سے گرا ہے اور تم اس کی خیریت دریافت کرنے کی بجائے پٹھے کا پوچھ رہے ہو۔تم تو انسان نہی حیوان لگتے ہو۔اس پر ٹھیکیدار نے رازدارانہ انداز میں کہا کہ اگر میں گرنے والے مزدور سے پوچھتا کہ وہ بچ گیا ہے اسے کوئی چوٹ ووٹ تو نہی آئی وہ فوری طور پر جسم کو کوئی حصہ پکڑتا اور اس پر چوٹ کہہ دیتا۔ یوں مجھے مہینہ بیس دن کی دہاڑی اس کو گھر بیٹھا کر دینی پڑتی لہٰذا میں نے اسے گرتے ہی پھٹے تختے کی فکر ڈال دی۔ اور وہ اپنی چوٹ بھول گیا۔دیکھا ایسے ہوتے ہیں ہیومن سیکالوجی کے ماہر کچھ یہی ہمارا حال کرپٹ حکومتوں نے گرانی لا کر کیا ہے اور عوام کو پھٹے کا فکر ڈالا ہوا ہے ان کے پاس لیڈروں کی جوابدہی اپنے زخموں کا مداوا کرنے یا پوچھنے کا وقت ہی کہاں ہے کہ یہ اہل کار بظاہر حکومت کو خوش لیکن اندرونی طور پر عوام کو ان سے نفرت کروانے میں لگے ہوئے ہیں۔اور عوام کے صبر اور غیض و غضب کا امتحان لے رہے ہیں۔یہ پانی میں لگی آگ کو پٹرول سے بجھا رہے ہیں۔حکومت کو ان نقا ب پوشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
لیڈروموجاکرو