صدر ٹرمپ کے پاگل پن میں ہوشیاری چھپی ہوئی ہے، سینیٹر فرحت اﷲ بابر
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پاکستان امریکہ تعلقات پر ایس ڈی پی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں منعقد کرائے گئے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے پاگل پن میں ہوشیاری چھپی ہوئی ہے۔ اس لئے پاکستان کی جانب سے غصے والا جواب دینے کی بجائے پاکستان کو چاہیے کہ ایک نپا تلا اور درست طریقہ اپنائے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ نئے سال پر ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد امریکہ کے پاکستان سے تعلقات کے نئے اصولوں کا اعلان، یکطرفہ اقدام اور ڈرون حملے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس لئے 5جنوری کو تمام سکیورٹی تعاون معطل کرنے کے اعلان پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں پاکستان میں ایک طرف امن کی خواہش اور دوسری جانب دھمکی آمیز رویہ اپنایا جو کہ درست پالیسی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 4دسمبر کو آئی ایس پی آر کا یہ بیان کہ دہشتگردوں کے ممکنہ طور پر پاکستان میں ہونے اور عسکری پسند تنظیموں اور اس کی ذیلی فلاحی تنظیموں کے اثاثے ضبط کرنا ایک مثبت اقدام ہو سکتا ہے لیکن ان اقدامات کے پیچھے کوئی جامع اور مضبوط پالیسی اقدامات نہیں لئے گئے۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی اجلاس دو سال بعد جلدی میں بلایا گیا اور 22دسمبر کو امریکی نائب صدر کے دورہ کابل سے قبل یہ اجلاس بلانا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش لگتا ہے اور ایسا قطعی غیر عقلمندانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلحے سے بڑی تباہی کا کارڈ کھیلنے کا رحجان اور افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی دھمکیاں غیرمعقول ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امداد کا معطل ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں اور اصل مسئلہ تعلقات کا شدید خراب ہونا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے 33بلین ڈالر 15سالوں میں دینے کی بات پاکستان کے قومی بجٹ کے صرف پانچ ماہ کے اخراجات کے برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد بھی پاکستان کی امداد معطل کی گئی تھی۔ 1979ء میں صدر کارٹر نے پاکستا کی تمام امداد معطل کر دی تھی اور 1990ء میں پرسلر ترمیم کے ذریعے امداد میں زبردست کمی کر دی گئی تھی۔ یوایس ایڈ کے دفاتر 1993ء میں آٹھ سالوں کے لئے بند کر دئیے گئے تھے اور 1998ء میں پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکی امداد مکمل طور پر روک دی گئی تھی۔ امریکہ کا بھارت کی جانب کو دبائو مارچ 2000ء میں اس وقت شروع ہوا جب صدر کلنٹن نے پانچ روز بھارت میں گزارے اور وہاں ہندوئوں کا تہوار ہولی بھی منایا جبکہ پاکستان میں صرف پانچ گھنٹے گزارے اور اس میں اس نے پاکستان کو خبردار کیا کہ دہشتگردی بالآخر پاکستان کو اندر سے تباہ کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ نئے تعلقات ٹرمپ نے نہیں بلکہ کلنٹن نے اپنائے تھے اور اگر امریکہ سے تعلقات مکمل طور پر ختم ہوگئے تو پاکستان کا یکطرفہ طور پر چین پر انحصار ہو جائے گا۔ تضادات کے متعلق انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف پاکستان دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی کی تردید کرتا ہے اور دوسری جانب ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کی جنگ کو پاکستان میں نہیں لانا چاہتا۔ اگر افغان طالبان پاکستان میں نہیں ہیں تو ا ن کی جنگ پاکستان میں کس طرح داخل ہو سکتی ہے؟ ایک جانب تو ہم پاکستان میں افغان طالبان کے ٹھکانوں کے متعلق پوچھتے ہیں اور دوسری جانب اس بات کی تحقیقات نہیں کراتے کہ ملا منصور اختر کو پاکستا کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کس نے دیا؟ سابق مشیر سرتاج عزیز کھلے عام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ کچھ طالبان لیڈران نہ صرف یہ کہ پاکستان میں رہ رہے ہیں بلکہ انہیں سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا کہ پالیسی سازی میں سویلین کا کردار بڑھایا جائے اور کچھ عرصہ قبل جب وزیر دفاع نے دہشتگردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کی بات کی تھی آئی ایس پی آر نے اسے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔ انہوںنے کہا کہ سینیٹ کی جانب سے پیش کی گئی حالیہ پالیسی گائیڈ لائن پر توجہ دی جائے اور سرحدوں کے دونوں جانب دہشتگردی کے الزامات کو مشترکہ طور پر دیکھا جائے۔ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ممبئی حملے کے مقدمے میں پیشرفت کریں اور گزشتہ سال پٹھانکوٹ پر حملے کی تحقیقات بھی کرائی جائیں۔انہوںنے کہا کہ BRICS کے اعلان اور اشرف غنی کی جانب سے پاکستانی ٹرکوں کا افغانستان میں داخلہ روکنا آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ امریکہ سے تعلقات اگر اس طرح ہی خراب ہوتے رہے تو سکیورٹی تعاون کے معطل ہونے کے بعد سکیورٹی کے افراد پر امریکہ کی جانب سے سفری پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔