سجل علی
تحریر :غزالہ فصیح
دلکش شخصیت اور جاندار اداکاری کی حامل سجل علی کا شمار پاکستان کی اْن اداکاروں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے نہایت تیزی سے ترقی کی منزلیںطے کی ہیں۔ سجل علی منی اسکرین سے شہرت سمیٹنے کے بعد اب پردہ فلم پر بھی جلوہ گر ہیں۔ایک پاکستانی فلم میں کام کرنے کے بعد ہی انھوں نے بھارت کے بالی ووڈ کی جانب اْڑان بھر لی۔کچھ عرصہ قبل انکی بھارتی فلم ’’مام‘‘ریلیز ہوئی ۔فلم نے بہت زیادہ بزنس نہیں کیا ،لیکن بھارتی فلم انڈسٹری اور میڈیا میں سجل علی کے خوب چرچے ہوئے ۔انکی اداکار ی کو سراہا گیا، حسن کے قصیدے پڑھے گئے۔ یہاں تک کہ انھیں بھارت کی صف اول کی اداکارائوں کے لئے خطرہ قراردے گیا ۔پاکستانی اداکاروں سے تعصب برتنے والے میڈیا نے بھی سجل کی اداکاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سری دیوی جیسی سپر اسٹار کے سامنے سجل نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، فنی لحاظ سے سجل کے کیرئر کی یہ بڑی کامیابی ہے۔ سجل علی کی سیریل ’’رنگ ریزہ ‘‘ ان دنوں آن ائر ہے اور مقبولیت حاصل کر رہی ہے اس سے پہلے انکی سیریل ’’یقین کا سفر ‘‘نے بے حد کامیابی حاصل کی اس میں وہ آصف رضامیر کے بیٹے احد کے مقابل جلوہ گر ہوئیں۔سجل بیک وقت کئی سیریلز، اشتہارات اور فیشن شوز میں بھی جلوہ گر ہو رہی ہیں، پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے عروج کے اس دور میں جبکہ چینلز پر نمایاں ہونے کے لئے مقابلے کی فضا بڑھتی جا رہی ہے سیجل ہر چیلنج کے لئے پوری طرح تیار ہیں وہ سوچ سمجھ کر کرداروں کا انتخاب کرتی ہیں اور محض اسکرین پر نظر آنے کے لئے کوئی پراجیکٹ نہیں لیتیں ،انھوں نے ایک بڑے چینل سے سیریل کی آفر بھی اسی بناء پر مسترد کردی کیونکہ انھیں کردار پسند نہیں تھا ،سیجل کے اس انداز پر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتاہے لوگ انھیں غرور اور نخرے بازی سے دور رہنے کے مشورے دیتے ہیں،حقیقتاًاس وقت سجل اپنے کیریئر کے سب سے اہم موڑ پر ہیں جہاں ایک طرف پاکستان میں انکو فلم اور ٹی وی سے اچھی آفرز مل رہی ہیں وہیں،بالی ووڈ بھی انھیں رجھا رہا ہے۔ ہندوستانی چینل ’’زی زندگی‘‘ پر بھی سجل علی کے کئی ڈرامے پیش کئے گئے ہیں ،جس سے انھیں انڈیا میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ سجل نے پاکستان اپنے فلمی کیرئر کا آغاز ’’زندگی کتنی حسین ہے‘‘ سے کیا ،جس میں ان کے دوست یا منگیتر فیروز خان ہیرو تھے ،یہ ایک نان کمرشل فلم تھی، اس نے زیادہ بزنس نہیں کیا۔ جب سجل سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے ’زندگی کتنی حسین ہے‘ جیسی نان کمرشل فلم کے ساتھ ہی فلمی صنعت میں قدم کیوں رکھا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’زندگی کتنی حسین ہے ایک رومانوی فلم ہے جسے میں نان کمرشل فلم نہیں مانتی، یہ ہر قسم کے ناظرین کے لیے بنائی گئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت مختلف فلم ہے۔ انہوں نے بولی وڈ فلم ’اڑتا پنجاب‘ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی کافی مختلف فلم تھی جس میں منشیات کی فروخت کے حوالے سے بات کی گئی تھی جسے ریلیز کے بعد اچھا ردعمل موصول ہوا۔سجل کا کہنا تھا میں نے اس فلم میں ایک ایسا کردار ادا کیا ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں کیا میرا ماننا ہے کہ ہمیں ہر قسم کی فلم بنانی چاہیے تاکہ پاکستانی سینما کو آگے لے جایا جاسکے۔
بالی ووڈ میںسجل کی فلم ’’مام ‘‘بھی ایک مختلف موضوع پر ہے ۔فلم’’مام‘‘ کی کہانی ماں اورسوتیلی بیٹی کے رشتے میں اتارچڑھاؤ کے ساتھ ،ایک ماں کی جانب سے بیٹی کے خلاف زیادتی کے مجرم سے بدلہ لینے کے گرد گھومتی ہے افلم میں سری دیوی، سجل علی کی سوتیلی والدہ اورپاکستانی اداکارعدنان صدیقی نے ان کے والد کا کردارادا کیا۔ بالی ووڈ کے ان نامور ناموں کے ساتھ ،سجل کا تحربہ کیسا رہا، اس حوالے سے سجل کا کہنا تھا کہ ’فلم موم میں کام کرنے کا تجربہ بے حد خوبصورت تھا جو عزت اور تعریف مجھے وہاں ملی خاص طور پر ساتھی اداکاروں، پروڈیوسرز اور ہدایت کار سے وہ واقعی بہت خاص ہے، میرے لیے یہ یادگار وقت تھا۔
فلم ’مام‘ میں کام کی حامی بھرنے کے سوال پر سجل نے کہا کہ اس فلم کا اسکرپٹ سب سے بڑی وجہ ہے، فلم کی کاسٹ بہت بہترین تھی، میں اکشے کھننہ کی مداح ہوں اور ان کے ساتھ فلم میں کام کرنا بہت خاص تھا، میں کسی بھی فلم میں شوپیس کی طرح پیش نہیں ہونا چاہتی اور اس فلم میں ہر اداکار کو بہتر موقع دیا گیا ہے۔
سجل سے جب سوال کیا گیا کہ کیا انہیں سری دیوی کے ساتھ کام کرنے میں کسی قسم کا دباؤ محسوس ہوا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ شروع میں وہ کافی ڈری ہوئی تھیں تاہم سری دیوی کے ساتھ پہلا سین شوٹ کرنے کے بعد وہ کافی حد تک مطمئن ہوگئیں۔ سجل علی کا کہنا تھا کہ میرے لیے’’آریہ ‘‘کا یہ کردار کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ سجل علی نے فلم میں اپنے پہلے سین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے سب سے مشکل حصہ سری دیوی کے ساتھ کام کرنا تھا، جیسے میرا پہلا سین کھانے کی ٹیبل کے پاس بیٹھ کر سری دیوی سے بدتمیزی کرنے کا تھا۔ اس فلم میں سجل علی نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جس کا ریپ ہو جاتا ہے اور بعد ازاں اس کی سوتیلی ماں اس کا بدلہ لیتی ہے۔ سجل کا مزید کہنا تھا کہ ایمانداری کی بات کی جائے تو بالی ووڈ جانا میرا خواب کبھی نہیں تھا، میں پاکستان میں کام کر کے خوش رہی لیکن ’’موم‘‘ کی کہانی نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس فلم کا موضوع کافی سنجیدہ اور نازک تھا جسے سمجھداری سے لیا گیا۔ انہوں نے فلم میں اپنی سوتیلی ماں کا کردار ادا کرنے والی سری دیوی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھی انسان ہیں۔ سری دیوی نے بھی سجل علی اور عدنان صدیقی کے لیے ایک جذباتی ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا تھا جسے پاکستان میں فلم موم کی نمائش کے دوران پیش کیا گیا۔وڈیو پیغا م میں سری دیوی نے نہ صرف پاکستانی اداکاروں کے کام کو سراہا بلکہ اْنہیں یاد کرتے ہوئے روبھی پڑیں۔ سجل نے سری دیوی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ واقعی ایک لیجنڈری اداکارہ ہیں، میری فیملی اور میں ان کے بڑے مداح ہیں وہ اْن چند لوگوں میں سے ہیں جن کی لْکس کے ساتھ ساتھ شخصیت بھی کافی خوبصوت ہے۔ سجل کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان انہیں بالکل گھر جیسا ہی لگا صرف بولی وڈ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی کافی اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور پاکستانیوں کے کام کو پسند کرتے ہیں۔
سجل کی چالیس سے زائد ڈرامہ سیریلز اور ٹیلی فلمز مختلف ٹی وی چینلز سے ٹیلی کاسٹ ہو چکی ہیں ان کی پہلی ڈرامہ سیریل محمود آباد کی ملکائیں، ہی سپرہٹ ہوئی دیگر مقبول ڈراموں میں مستانہ ماہی، میرے قاتل میرے دلدار، میری لاڈلی، احمد حبیب کی بیٹیاں، چاندنی، محبت جائے بھاڑ میں، ستمگر، سسرال کے رنگ انوکھے ، میرے خوابوں کا دیا، قدوسی صاحب کی بیوہ، ننھی، کہانی ایک رات کی، کتنی گرہیں باقی ہیں، گوہر نایاب، آسمانوں پر لکھا، سناٹا، قدرت، کہانی رائما اور مناہل کی، لاڈوں میں پلی، چپ رہو، میرا رقیب، چپکے سے بہار آ جائے، کس سے کہوں اور خدا دیکھ رہا ہے، اومیری بلی، ستارہ کی محبت، کیا پیار ہو گیا، دوسرا نام، بے حد، یقین، بینڈ بج گیا، بخت بھری، ویل ان ٹائم، گدھ ’’یوں ہم ملے ، تم میرے کیا ہو اور گل رعنا شامل ہیں۔
فلموں میںکام جاری رکھنے کے حوالے سے سجل کاکہنا ہے کہ میں نے اپنے فنی کئیریر کا آغاز منی اسکرین سے کیا اور مجھے آج بھی ڈرامہ کرتے ہوئے بہت لطف آتاہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بڑی اسکرین کا چارم زیادہ ہے اور ہر اداکار کا خواب بڑی اسکرین تک پہنچنا ہوتاہے۔جہاں تک پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کا تعلق ہے تو لوگ روایتی فلمیں دیکھ کر اکتا چکے ہیں نئے موضوعات پر فلمیں بنانے سے فلم انڈسٹری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔سجل علی نے کہا کہ ہمیں بھارتی فلموں کے مقابلے میں اپنی فلموں کا معیار بہتر کرنا ہو گا جو چیز بھی بہتر ہو تی ہے لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور یہی معیار فلموں کے حوالے سے بھی ہے۔ تکنیکی اور موضوعات کے طور پر بھارتی فلمیں ہم سے بہتر ہیں مگر اس سے ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم بھارت سے بہتر فلمیں بنا سکتے ہیں کیونکہ بھارت سے بہتر ٹیلنٹ ہمارے ملک میں موجود ہے صرف اسے موقع ملنا چاہیے۔
فلموں کی مزید آفرز کے بارے میں سجل کہتی ہیںکہ انھیںکام کی بہت آفرز ہو رہی ہیں بھارت سے بھی اور پاکستان سے بھی بھارت سے کچھ فلمیں ایسی تھیں جن میں بولڈ سین تھے اس لئے معذرت کر لی۔ بھارت سے ایسی فلم کی آفر ہوئی جس میں بولڈ سین نہ ہوئے اور مناسب ڈریسز والا کردار ہوا تو ضرور قبول کروںگی۔ پاکستانی فلموں میں بھی آفرز ہو رہی ہیں میں چاہتی ہوں کہ جس طرح ٹی وی ڈراموں میں ، میں نے معیار برقرار رکھا ہے اسی طرح فلم میں بھی معیاری کام کروں جب کسی معیاری فلم میں کام ملا تو ضرور کروں گی۔