سرکاری اداروں میں کرپٹ مافیا کا راج
حلقہ این اے 155 لودھراںII پر مشتمل ہے۔ جہاں سے گزشتہ الیکشن میں عبدالرحمان خان کانجو 85452 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے محمد اختر کانجو نے 60524 ووٹ حاصل کئے۔ اب کشتی کس کروٹ ٹھہرتی ہے۔ وقت ہی بتائے گا حلقہ 156 تحصیل کبیر والہ پر مشتمل ہے۔ جہاں پر مقابلہ روایتی طور پر ہراج گروپ اور سید گروپ کے درمیان ہوتا رہا ہے۔ ہراج گروپ جس سیاسی جماعت میں ہوتا ہے سید گروپ مخالف سیاسی جماعت میں ہوتا ہے۔ دونوں گروپ ن لیگ‘ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دو الیکشن میں سید گروپ کے اندر پھوٹ تھی اور ڈاکٹر خاور علی شاہ اور سید فخر امام ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے۔ اس لئے رضا حیات ہراج کو انہیں شکست دینے میں قطعی دقت نہیں ہوئی۔ 2013 ء کے الیکشن میں رضا حیات ہراج نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا اور 80179 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ سید فخر امام نے ن لیگ کی طرف سے 60524 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے خاور علی شاہ نے 20837 ووٹ حاصل کئے۔ یوں مجموعی طور پر فخر امام اور سید خاور علی شاہ نے رضا حیات ہراج سے زیادہ ووٹ حاصل کئے لیکن ناکام رہے۔ اب سید گروپ میں دوبارہ صلح ہو چکی ہے۔ رضا حیات ہراج نے گزشتہ الیکشن میں کامیابی کے بعد ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اب ایک بار پھر ن لیگ سے منہ موڑ چکے ہیں ۔ اگلا الیکشن وہ پی ٹی آئی یا آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لے سکتے ہیں۔ نتیجہ کا انحصار ان کے فیصلہ پر ہے لیکن مقابلہ بہرحال دونوں گروپوں کا ہونا ہے۔
حلقہ این اے 169 وہاڑی III پر مشتمل ہے جہاں سے گزشتہ الیکشن میں آزاد امیدوار طاہر اقبال 89673 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ ن لیگ کی تہمینہ دولتانہ نے 72956 ووٹ حاصل کئے تھے تاہم بعد میں طاہر اقبال ن لیگ میں شامل ہو گئے لیکن موجودہ الیکشن2018 ء میں ان کی سمت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ اس نے نااہلی کیس میں نوازشریف کو ووٹ نہیں دیا اور بظاہر لگتا ہے کہ وہ اگلا الیکشن پی ٹی آئی یا کسی اور پلیٹ فارم سے لڑیں گے۔ حلقہ این اے 170 وہاڑی IV پر مشتمل ہے یہ تحصیل میلسی کے علاقہ پر مشتمل ہے اور اصل مقابلہ منیس اور کھچی خاندانوں میں ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی زیادہ اہمیت نہیں۔ گزشتہ الیکشن میں سعید احمد خاں منیس 83895 ووٹ لیکر اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ پی ٹی آئی کے اورنگ زیب خان کھچی نے 81131 ووٹ حاصل کر کے اپنی مؤثر موجودگی کا احساس دلایا۔ اگلے الیکشن میں اس حلقے کا موڈ پہلے سے ذرا مختلف لگ رہا ہے لیکن مقابلہ پہلے کی طرح زبردست ہونے جا رہا ہے۔ 16 حلقوں کا یہ تجزیہ پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہے۔ (آخری قسط)