یہ ہیں ہمارے چیف سیکرٹری
اپنی ذہانت‘ قابلیت‘ شرافت اورمتانت کی بدولت ترقی اورکامیابی کا سفر طے کرنے والے رضوان میمن بطورچیف سیکرٹری سندھ نہایت عمدگی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انکی اصول پرستی‘ جرات مندی‘ صاف گوئی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان کا کیرئیر شاندار کارکردگی سے عبارت ہے‘ وہ پاکستان ایڈمنسٹریٹوگروپ کے سینئر آفیسر ہیں۔ بمبئے سے علیحدگی کے بعد 1936ء سے اب تک وہ سندھ صوبہ کے55 ویں چیف سیکرٹری ہیں اوراگر یکم جولائی1970ء کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سے دیکھا جائے تو وہ سندھ کے 39 ویں چیف سیکرٹری بنتے ہیں‘ وہ چیف سیکرٹری بننے اورگریڈ 22 میں ترقی حاصل کرنے سے پہلے بھی سندھ میں طویل عرصے تک مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ بطورسیکرٹری تعلیم‘ سیکرٹری سروسز اورسینئر ممبربورڈ آف ریونیو میں ان کی کارکردگی یاد کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ چیلنج قبول کرنے والی شخصیت ہیں جوکسی بھی پریشان کن صورت حال میں قطعاً نہیںگھبراتے اور ہر مرتبہ مرد بحران ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ان پرخاص کرم ہے‘والدین کی دعائیں ہیںاور ان کی سنجیدگی اور اپنے کام سے لگن اورسچائی ہے جسکے نتیجے میں وہ اپنی کشتی طوفانوں سے باہرکھینچ لاتے ہیں اور ہمیشہ سرخرو نظرآتے ہیں۔چیف سیکرٹری بننے کے بعد نومبر 2016ء سے اب تک انہوں نے بڑی محنت اور تندہی کے ساتھ مختلف حالات وواقعات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ صوبے میں سب سے بڑے سرکاری افسرکی کرسی پربیٹھناکس قدر مشکل کام ہے‘ اس کا اندازہ انہیں بخوبی ہوچکا ہے۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے‘ یہاں ہر روز نئے مسائل سراٹھاتے ہیں‘ ایک سے بڑھ کرایک بحران آتا ہے اوردبائو اتناکہ جتنابھی کوئی تصورکرے وہ کم ہے۔ اس صورتحال میں خود کو پرسکون اوراپنے بلڈ پریشرکونارمل رکھنابھی جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ اس عہدے پر آنے کے بعد کوئی دن اورکوئی رات آپ کی اپنی نہیںرہتی۔ آپ کی زندگی میںآرام کا لفظ غائب ہوجاتا ہے‘ آپ ایک مشینی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں‘ جہاں انگنت کام بغیر شیڈول کے بھی آپ کے سر پرآجاتے ہیں اور ان دیکھے معاملات سے آپ کو ہنگامی طور پرنمٹنا پڑتاہے۔ رضوان میمن نے شروع دن سے ہی صوبے میںگڈگورننس کی فراہمی اور حکومتی فیصلوں میں شفافیت لانے کے لئے اپنا عزم دکھایا ہے اورخوش قسمتی ہی کہی جائے گی کہ انہیں سید مراد علی شاہ جیسے ولولہ انگیز‘ حوصلہ مند‘ فعال اورانتہائی سرگرم وزیراعلیٰ ملے ہیں‘ جن کی سربراہی میںوہ صوبے کے انتہائی بگڑے ہوئے معاملات کوسدھارنے کیلئے شبانہ روز محنت کررہے ہیں۔ ان کے اقدامات اورنیک نیتی سے کئے جانے والے کاموں کو سرکاری حلقوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی سراہا ہے اور یہ بات ان کیلئے قابل فخر ہے کہ وہ ہر سطح پر صاف گوئی اورسچائی سے بات کرنے والے چیف سیکرٹری تسلیم کئے جاتے ہیں۔بالکل ٹھیک ہی کہا جاتا ہے کہ جوشخص گھرمیں سکھی ہوتا ہے وہی شخص باہر آکر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور اس کی کامیابی میںگھریلو سکون اور تعاون بہت اہم کردارادا کرتاہے۔ رضوان میمن کے معاملے میں بھی یہ بات بالکل صادق آتی ہے ان کی اہلیہ عائشہ رضوان انتہائی خیال رکھنے والی بیوی ہیں جو اپنے شوہرکوہی اپنی زندگی مانتی ہیں ۔رضوان میمن ایک بہترین شوہر‘ شفیق والد اورپیارکرنے والے سسر بن چکے ہیں۔ ان کے حلقہ احباب میں ان کی ہرلحاظ سے تعریف کی جاتی ہے۔ ان کے دو بیٹے ابراہیم رضوان اورعبداللہ رضوان میمن ہیں۔ علیزے ابراہیم ان کی بیٹی جیسی بہو ہیں۔ رضوان میمن خود سندھی بولنے والے میمن ہیں اور ان کی اہلیہ عائشہ پنجابی ہیں۔ ان کے دوست ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’لاہوری کڑی تے سندھی منڈا‘‘ لیکن انتہائی خوبصورت اور پیارکرنے والاجوڑا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا خاندانی پس منظر اگلی نسل کے لئے بھی قابل رشک اورقابل فخر ہے۔ اس فیملی میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول سے لے کرسانحہ سیہون شریف تک اس فیملی کو اشکبار بھی دیکھا گیاگویا اپنے ملک کے کسی بھی گوشے میں ہونے والاکوئی بھی نا خوشگوار اور افسوس ناک واقعہ ہوتواسے قومی نقصان ہی تصورکیاجاتاہے۔ اس حوالے سے اب کچھ سوالات ہیں جورضوان میمن کاتعاقب کررہے ہیں‘ ان کاجواب شاید وہ تنہائی کے عالم میں اپنے آپ سے حاصل کرسکتے ہیں کہ اب تک صوبائی بیورو کریسی کاسربراہ بننے کے بعدسے کیا۔ انہوں نے واقعی ایک ’’باپ‘‘ ہونے کا حق اداکیاہے۔ کیا ان کے دور میں ہونے والے تمام سلیکشن بورڈز میں پروموشن واقعی حقدار کودیا گیا ہے۔ کیا ان کی ناک کے عین نیچے کام کرنے والے افسران کی تعیناتی اورتبادلے کارکردگی اورمیرٹ کی بنیاد پر ہورہے ہیں‘ کیا سرکاری اسپتالوں‘ اسکولوں‘ کالجوں میں فنڈز کا استعمال شفاف طریقے سے ہورہاہے ‘ کیاصوبائی محکمہ اینٹی کرپشن اپنی ساکھ اورکارکردگی میں کوئی نمایاں تبدیلی لاپایا ہے‘ کیا سندھ پبلک سروس کمیشن پرکھویا ہوا اعتماد بحال ہواہے‘ کیابورڈ آف ریونیو کے معاملات میں آسانی اورسادگی پیداکی گئی ہے۔ کیا سرکاری رہائش گاہیں میرٹ پرسرکاری افسران ملازمین کوالاٹ کی جاسکی ہیں‘ کیاکشمور سے کیماڑی تک اور دادو سے تھرتک کمشنرز اورڈپٹی کمشنرز اورانتظامی سربراہان کی کارکردگی مروجہ اصولوں اورقواعدکے مطابق جانچ کی جارہی ہے‘ کیا ماتحت افسران و ملازمین کو دی جانے والی اے سی آرز حقائق کی ترجمانی کررہی ہیں‘ کیاڈاکٹروں اوراساتذہ کے ساتھ انصاف کیا جارہا ہے‘ کیا عوام کوپینے کاصاف پانی فراہم کرنے کے ٹھوس اقدامات کامیابی سے ہمکنار ہوسکے ہیں‘ کیا نکاسی آب اورماحولیاتی آلودگی کے مسائل پر قابو پانے کیلئے نتیجہ خیزحکمت عملی نظرآرہی ہے‘ کیا سفارش کلچر کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے‘ کیا عام لوگوں کو بہتری سفری سہولتیں فراہم کرنے کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ اسیکمیں شروع کرنے میں ہونے والی تاخیر پرقابوپالیا گیا ہے۔ یہ اوربہت سارے مزید سوالات اور موضوعات ہیں جن پرچیف سیکرٹری سے سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے اورکچھ شارٹ ٹرم باقی لانگ ٹرم اقدامات ہیں جن کیلئے مناسب وقت بھی درکار ہوتاہے۔ بشرط زندگی ان معاملات پر آنے والے کالموں میں تفصیل سے بات کریں گے‘ تب تک چیف سیکرٹری کی خدمت میں اتنی ہی گزارش ہے کہ اپنی توانائیاں اپنے ذمہ کے کاموں پر ہی خرچ کریں‘ دوسروں کی لڑائیاں ان کو خود لڑنے دیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔