راجہ ممتاز حسین راٹھور زمانہ طالب علمی میں ہی پیپلزپارٹی سے وابستہ ہو گئے تھے۔ اپنی محنت اور ریاضت سے پارٹی میں اپنا مقام بنا لیا اور 1990ء کے انتخابات کے بعد 29 جون 1990ء کو وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالا۔ دراصل پیپلزپارٹی کی یہ حکومت کولیشن گورنمنٹ تھی اور اتحادی جماعتیں اُن کو بلیک میل کر رہی تھیں چنانچہ اُنہوں نے خود صدر ریاست سردار محمد عبدالقیوم سے درخواست کر کے قانون ساز اسمبلی تحلیل کروا دی اور نئے انتخابات ہونے تک (جولائی 1991ئ) وہ وزیراعظم رہے۔ راجہ صاحب ذاتی زندگی میں دیانتدار اور غریب پرور انسان تھے۔ وہ 16 جون 1989ء کو حرکتِ قلب بند ہونے سے وفات پاگئے۔نئے انتخابات کے بعد سردار محمد عبدالقیوم خان وزیراعظم اور سردار سکندر حیات خان صدر منتخب ہوئے۔ سردار محمد عبدالقیوم خان کی وزارتِ عظمی کا یہ دور 1991ء سے 1996ء تک محیط تھا۔ اس دور میں جماعت کے اندر دھڑے بندی کو فروغ ملا۔ دونوں سرداروں کے درمیان ایک قسم کی سرد جنگ جاری تھی۔ سردار سکندر حیات کے حامیوں کو ’’مسلِم کانفرنس سین‘‘ اور سردار محمد عبدالقیوم خان کے حامیوں کو ’’مسلِم کانفرنس قاف‘‘ کے نام سے شہرت مِلی۔ اِس کشمکش کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ سردار عبدالقیوم خان نے اپنے فرزند سردار عتیق احمد خان کو وزارتِ عظمٰی کے اختیار تفویض کر دیئے تھا اور وہ ڈی فیکٹو وزیراعظم کہلاتے تھے۔ اس دور میں پبلک سروس کمشن اور سلیکشن بورڈ کو نظرانداز کر کے من پسند افراد کی 480 تقرریاں کی گئیں اور اسے قانونی جواز کا خلعت پہنانے کیلئے ’’سِول سرونٹس ایکٹ‘‘ پاس کروایا گیا لیکن اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جس نے اس قانون کو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دے کر کالعدم کر دیا۔
اس دور میں جہاد کشمیر کی ایک بے مثال تحریک برپا ہوئی جس میں کم و بیش ایک لاکھ نوجوانوں نے اپنے سروں کی فصل کٹوا دی۔ اس سارے عرصہ میں سردار صاحب تحریکِ جہاد سے لاتعلق رہے اور وہ مجاہدانہ بانکپن جو اُنکے کردار کا جزوِ لاینفک تھا اُس سے وہ مسلسل پسپا ہوتے چلے گئے۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کمپرومائز کے راستے پر چلتے رہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ ایک مرتبہ اپنے دورۂ بھارت کے دوران اُنہوں نے تحریکِ جہاد کشمیر کو ’’دنگا فساد‘‘ قرار دے دیا۔
1996ء کے انتخابات میں مسلِم کانفرنس کو شکست ہوئی اور پیپلزپارٹی کے بیرسٹر سلطان محمود نے 31 جولائی 1996ء کو وزارتِ عُظمٰی کا حلف اٹھایا‘ بیرسٹر سلطان محمود نے اپنی سیاست کا آغاز ’’آزاد مسلم کانفرنس‘‘ کے پلیٹ فارم سے کیا جو اُنکے والد چودھری نور حسین خان نے وراثت کے طور پر اُنکے حوالے کی تھی۔ مسٹر کے ایچ خورشید کی وفات 1988ء کے بعد اُنہوں نے اپنی جماعت کو ’’لبریشن لیگ‘‘ میں ضم کر دیا اور اُسکے صدر بن گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور 1996ء کے انتخابات میں پارٹی کی طرف سے پارلیمانی لیڈر نامزد کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ اُنکا دورِ حکومت 2001ء تک جاری رہا۔ گذشتہ انتخابات منعقدہ 2002ء میں انہوں نے پیپلزپارٹی سے مستعفی ہو کر اپنی نئی جماعت ’’پیپلز مسلم لیگ‘‘ تشکیل کی اور اسی پلیٹ فارم سے انتخابی میدان میں اُترے لیکن اُنکی پارٹی کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ حالیہ دنوں میں اُنہوں نے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر کے پارٹیاں تبدیل کرنے کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔
جولائی 2001ء کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ’’مسلِم کانفرنس‘‘ نے کامیابی حاصل کی اور سردار سکندر حیات خان نے ایک مرتبہ پھر جولائی 2001ء کو وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا۔ مارچ 2002ء میں سردار عتیق احمد خان کو مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا اور بظاہر دونوں دھڑوں میں مفاہمت ہو گئی۔ سردار سکندر حیات خان کے آخری دورِ حکومت کے دوران 2005ء میں قیامت خیز زلزلہ نے تباہی مچا دی اور اُن کو کہنا پڑا کہ ’’میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں‘‘۔ وہ 11 جولائی 2006ء تک اقتدار میں رہے اور نئے انتخابات کے بعد سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح سردار عتیق احمد خان کو وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔
11 جولائی 2006ئخ کو منعقد ہونیوالے انتخابات میں سردار عتیق احمد خان ’’مسلم کانفرنس‘‘ کی طرف سے پارلیمانی لیڈر منتخب کر لئے گئے تھے … اور مسلم کانفرنس کی کامیابی کے نتیجہ میں انہوں نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔ سردار عتیق احمد خان کی سیاست تربیت بلامبالغہ سردار محمد عبدالقیوم خان کے ہاتھوں میں تکمیل پذیر ہوئی اور وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تنظیم سے لیکر مسلم کانفرنس کی تنظیم تک اپنے والدِ محترم کی ہدایات اور رہنمائی کے مطابق کام کرتے رہے۔ اُنکی وزارتِ عظمیٰ کے دوران میں راجہ ذوالقرنین خان صدرِ ریاست منتخب ہو گئے۔ سردار عبدالقیوم خان فطری طور پر اپنے فرزندِ ارجمند کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے لیکن جماعت کے سینئر رہنما رکاورٹ بنے ہوئے تھے‘ اگرچہ سردار سکندر حیات خان کا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان اندرونی خلفشار کے خاتمہ کا بھی اعلان تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور اندر ہی اندر دھڑے بندیاں جاری رہیں۔ یہ کہنا قرین انصاف ہوگا کہ سردار عتیق احمد خان کو کسی نے طشتری میں رکھ کر وزارتِ عظمی نہیں دی بلکہ اِس تک پہنچنے کیلئے اُن کی اپنی جدوجہد۔ کارکنوں سے روابط اور دوڑ دھوپ شامل تھی۔
اُن کو دارالحکومت کی منتقلی کے حوالے سے جماعت کے اندر اور باہر سے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں نے سیاسی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے دارالحکومت کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
6 جنوری 2009ء کو ’’مسلِم کانفرنس‘‘ کے فارورڈ بلاک نے اپوزیشن ممبران کو مِلا کر اُن کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی جس کے نتیجہ میں سردار عتیق احمد خان کو وزارتِ عُظمیٰ سے دستبردار ہونا پڑا۔ اُنکے بعد سردار محمد یعقوب خان کو وزیراعظم نامزد کیا گیا جنہوں نے 6 جنوری 2009ء کو ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن پیپلزپارٹی کی طرف اُنکے غیرمتوازن جھکائو نے مسلِم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو متحد ہونے پر مجبور کر دیا اور مورخہ 22 اکتوبر 2009ء کو ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے ذریعہ وزارتِ عظمیٰ کا تاج راجہ فاروق حیدر خان کے سر پر رکھا گیا۔ چونکہ اُنہوں نے سردار عتیق احمد خان کی حکومت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لئے سردار عتیق احمد خان نے ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے طور پر پیپلزپارٹی کو مِلا کر راجہ فاروق حیدر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ حالات دیکھ کر راجہ فاروق حیدر خان 29 جولائی 2009ء کو مستعفی ہو گئے اور سردار عتیق احمد خان اُسی دن دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔
راجہ فاروق حیدر خان کے والد راجہ حیدر خان دو مرتبہ ’’آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ کے صدر منتخب ہوئے تھے اور جماعت سے وابستگی اُن کو ورثے میں مِلی تھی۔ وہ نہایت کڑے وقتوں میں جماعت کے ساتھ کھڑے رہے‘ اگر جماعتی قیادت دُور اندیشی سے کام لیتی تو اُن کو برداشت کیا جانا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ بالآخر سردار سکندر حیات خان، راجہ فاروق حیدر اور انکے رفقاء نے میاں نوا زشریف کو آزاد کشمیر میں ’’مسلِم لیگ نون‘‘ کو تشکیل دینے پر آمادہ کر لیا اور 26 دسمبر 2010ء کو میاں نواز شریف نے مظفرآباد جاکر مسلم لیگ نون کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس سارے کھیل میں وزارتِ امور کشمیر پوری طرح ملوث رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ سردار محمد عبدالقیوم خان نے اپنے دورِ حکومت میں تحمل، برداشت، رواداری، اعلیٰ ظرفی اور دانش و بصیرت سے کام لیکر جماعتی اتحاد کو قائم رکھا لیکن اُن کے بعد جو لوگ سیاسی کھیل کھیلنے کیلئے میدان میں اُترے۔ اُنہوں نے کوتاہ اندیشی اور متلون مزاجی کا مظاہرہ کرتے اپنے پیش رو رہنمائوں کی روایات سے انحراف کیا۔ راقم الحروف کے خیال میں اِس اکھاڑ پچھاڑ سے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آزاد کشمیر میں نظریاتی سیاست دم توڑ گئی ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں لاکھوں نوجوانوں نے اپنے لہُو سے آزادیٔ کشمیر کا چراغ روشن کر رکھا ہے … اور سید علی گیلانی بھارتی اور امریکی سامراج کی حکمتِ عملی کے سامنے نہایت استقامت سے آزادی کے نصبُ العین سے وابستہ ہے۔ قحط الرجال کے اِس دور میں کیا ہمیں ایسی قیادت میسر آسکتی ہے جو اپنے افکار و نظریات میں مستحکم، سیرت و کردار کے لحاظ سے پُختہ اور دانِش و بصیرت سے بہرہ ور ہو۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جسکا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا۔ زمانہ فرسُودہ طریقوں سے بیزار ہے … جیسے کہہ رہا ہو …؎
کیا نہیں اور غزنوی کارگہہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر، اہلِ حرم کے سومنات
اس دور میں جہاد کشمیر کی ایک بے مثال تحریک برپا ہوئی جس میں کم و بیش ایک لاکھ نوجوانوں نے اپنے سروں کی فصل کٹوا دی۔ اس سارے عرصہ میں سردار صاحب تحریکِ جہاد سے لاتعلق رہے اور وہ مجاہدانہ بانکپن جو اُنکے کردار کا جزوِ لاینفک تھا اُس سے وہ مسلسل پسپا ہوتے چلے گئے۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کمپرومائز کے راستے پر چلتے رہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ ایک مرتبہ اپنے دورۂ بھارت کے دوران اُنہوں نے تحریکِ جہاد کشمیر کو ’’دنگا فساد‘‘ قرار دے دیا۔
1996ء کے انتخابات میں مسلِم کانفرنس کو شکست ہوئی اور پیپلزپارٹی کے بیرسٹر سلطان محمود نے 31 جولائی 1996ء کو وزارتِ عُظمٰی کا حلف اٹھایا‘ بیرسٹر سلطان محمود نے اپنی سیاست کا آغاز ’’آزاد مسلم کانفرنس‘‘ کے پلیٹ فارم سے کیا جو اُنکے والد چودھری نور حسین خان نے وراثت کے طور پر اُنکے حوالے کی تھی۔ مسٹر کے ایچ خورشید کی وفات 1988ء کے بعد اُنہوں نے اپنی جماعت کو ’’لبریشن لیگ‘‘ میں ضم کر دیا اور اُسکے صدر بن گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور 1996ء کے انتخابات میں پارٹی کی طرف سے پارلیمانی لیڈر نامزد کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ اُنکا دورِ حکومت 2001ء تک جاری رہا۔ گذشتہ انتخابات منعقدہ 2002ء میں انہوں نے پیپلزپارٹی سے مستعفی ہو کر اپنی نئی جماعت ’’پیپلز مسلم لیگ‘‘ تشکیل کی اور اسی پلیٹ فارم سے انتخابی میدان میں اُترے لیکن اُنکی پارٹی کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ حالیہ دنوں میں اُنہوں نے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر کے پارٹیاں تبدیل کرنے کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔
جولائی 2001ء کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ’’مسلِم کانفرنس‘‘ نے کامیابی حاصل کی اور سردار سکندر حیات خان نے ایک مرتبہ پھر جولائی 2001ء کو وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا۔ مارچ 2002ء میں سردار عتیق احمد خان کو مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا اور بظاہر دونوں دھڑوں میں مفاہمت ہو گئی۔ سردار سکندر حیات خان کے آخری دورِ حکومت کے دوران 2005ء میں قیامت خیز زلزلہ نے تباہی مچا دی اور اُن کو کہنا پڑا کہ ’’میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں‘‘۔ وہ 11 جولائی 2006ء تک اقتدار میں رہے اور نئے انتخابات کے بعد سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح سردار عتیق احمد خان کو وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔
11 جولائی 2006ئخ کو منعقد ہونیوالے انتخابات میں سردار عتیق احمد خان ’’مسلم کانفرنس‘‘ کی طرف سے پارلیمانی لیڈر منتخب کر لئے گئے تھے … اور مسلم کانفرنس کی کامیابی کے نتیجہ میں انہوں نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔ سردار عتیق احمد خان کی سیاست تربیت بلامبالغہ سردار محمد عبدالقیوم خان کے ہاتھوں میں تکمیل پذیر ہوئی اور وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تنظیم سے لیکر مسلم کانفرنس کی تنظیم تک اپنے والدِ محترم کی ہدایات اور رہنمائی کے مطابق کام کرتے رہے۔ اُنکی وزارتِ عظمیٰ کے دوران میں راجہ ذوالقرنین خان صدرِ ریاست منتخب ہو گئے۔ سردار عبدالقیوم خان فطری طور پر اپنے فرزندِ ارجمند کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے لیکن جماعت کے سینئر رہنما رکاورٹ بنے ہوئے تھے‘ اگرچہ سردار سکندر حیات خان کا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان اندرونی خلفشار کے خاتمہ کا بھی اعلان تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور اندر ہی اندر دھڑے بندیاں جاری رہیں۔ یہ کہنا قرین انصاف ہوگا کہ سردار عتیق احمد خان کو کسی نے طشتری میں رکھ کر وزارتِ عظمی نہیں دی بلکہ اِس تک پہنچنے کیلئے اُن کی اپنی جدوجہد۔ کارکنوں سے روابط اور دوڑ دھوپ شامل تھی۔
اُن کو دارالحکومت کی منتقلی کے حوالے سے جماعت کے اندر اور باہر سے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں نے سیاسی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے دارالحکومت کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
6 جنوری 2009ء کو ’’مسلِم کانفرنس‘‘ کے فارورڈ بلاک نے اپوزیشن ممبران کو مِلا کر اُن کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی جس کے نتیجہ میں سردار عتیق احمد خان کو وزارتِ عُظمیٰ سے دستبردار ہونا پڑا۔ اُنکے بعد سردار محمد یعقوب خان کو وزیراعظم نامزد کیا گیا جنہوں نے 6 جنوری 2009ء کو ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن پیپلزپارٹی کی طرف اُنکے غیرمتوازن جھکائو نے مسلِم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو متحد ہونے پر مجبور کر دیا اور مورخہ 22 اکتوبر 2009ء کو ’’ان ہائوس تبدیلی‘‘ کے ذریعہ وزارتِ عظمیٰ کا تاج راجہ فاروق حیدر خان کے سر پر رکھا گیا۔ چونکہ اُنہوں نے سردار عتیق احمد خان کی حکومت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لئے سردار عتیق احمد خان نے ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے طور پر پیپلزپارٹی کو مِلا کر راجہ فاروق حیدر کیخلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ حالات دیکھ کر راجہ فاروق حیدر خان 29 جولائی 2009ء کو مستعفی ہو گئے اور سردار عتیق احمد خان اُسی دن دوبارہ وزیراعظم بن گئے۔
راجہ فاروق حیدر خان کے والد راجہ حیدر خان دو مرتبہ ’’آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ کے صدر منتخب ہوئے تھے اور جماعت سے وابستگی اُن کو ورثے میں مِلی تھی۔ وہ نہایت کڑے وقتوں میں جماعت کے ساتھ کھڑے رہے‘ اگر جماعتی قیادت دُور اندیشی سے کام لیتی تو اُن کو برداشت کیا جانا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ بالآخر سردار سکندر حیات خان، راجہ فاروق حیدر اور انکے رفقاء نے میاں نوا زشریف کو آزاد کشمیر میں ’’مسلِم لیگ نون‘‘ کو تشکیل دینے پر آمادہ کر لیا اور 26 دسمبر 2010ء کو میاں نواز شریف نے مظفرآباد جاکر مسلم لیگ نون کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس سارے کھیل میں وزارتِ امور کشمیر پوری طرح ملوث رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ سردار محمد عبدالقیوم خان نے اپنے دورِ حکومت میں تحمل، برداشت، رواداری، اعلیٰ ظرفی اور دانش و بصیرت سے کام لیکر جماعتی اتحاد کو قائم رکھا لیکن اُن کے بعد جو لوگ سیاسی کھیل کھیلنے کیلئے میدان میں اُترے۔ اُنہوں نے کوتاہ اندیشی اور متلون مزاجی کا مظاہرہ کرتے اپنے پیش رو رہنمائوں کی روایات سے انحراف کیا۔ راقم الحروف کے خیال میں اِس اکھاڑ پچھاڑ سے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آزاد کشمیر میں نظریاتی سیاست دم توڑ گئی ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں لاکھوں نوجوانوں نے اپنے لہُو سے آزادیٔ کشمیر کا چراغ روشن کر رکھا ہے … اور سید علی گیلانی بھارتی اور امریکی سامراج کی حکمتِ عملی کے سامنے نہایت استقامت سے آزادی کے نصبُ العین سے وابستہ ہے۔ قحط الرجال کے اِس دور میں کیا ہمیں ایسی قیادت میسر آسکتی ہے جو اپنے افکار و نظریات میں مستحکم، سیرت و کردار کے لحاظ سے پُختہ اور دانِش و بصیرت سے بہرہ ور ہو۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جسکا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا۔ زمانہ فرسُودہ طریقوں سے بیزار ہے … جیسے کہہ رہا ہو …؎
کیا نہیں اور غزنوی کارگہہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر، اہلِ حرم کے سومنات