لفظ قاتل لفظ مسیحا

Feb 09, 2025

قرة العین شعیب

قرةالعین شعیب 
 لفظوں میں بہت تاثیر ہوتی ہے۔ یہ کسی کو زندگی بھی بخش سکتے اور کسی کو موت کو گلے لگانے پر بھی اکسا سکتے ہیں۔ کیسے ایک جذباتی تقریر لوگوں کے جذبات کو ابھارتی ہے اور لوگ ہجوم در ہجوم کسی ایک مقصد پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ کیسے کسی ایک بات پر کوئی مشتعل ہو جاتا ہے اور قتل ہو جاتے ہیں۔ 
 گفتگو کائینات میں جادوئی اثرات رکھتی ہے۔ لفظ جو گفتگو کا اہم حصہ ہوتے بعض اوقات غیر محسوس ہوتے ہیں مگر گہرے اثرات رکھتے ہیں۔ ایسے غیر محسوس طریقے اور الفاظ جو بظاہر نارمل ہوں مگر دوسرے شخص کے جذبات ، شخصیت ، سوچ اور کارکردگی کو متاثر کریں اسے مائیکرو ایگریشن کہتے ہیں۔ مائیکرو ایگریشن ہمارے چھوٹے چھوٹے بظاہربے ضرر عمل ہیں۔ 
 اگرچہ جو شخص ایسا کرتا ہے اسے اس کا بسا اوقات احساس بھی نہیں ہوتا۔ مائیکرو ایگریشن لاشعوری تعصب ، حسد ، احساس کمتری یا احساس برتری سے پیدا ہوتے ہیں۔ 
مائیکروایگریشن سے مراد وہ روزمرہ کے چھوٹے مگر معنی خیز جملے، تبصرے، یا عمل ہیں جو چاہے جان بوجھ کر کئے جائیں یا غیراردای طور پر کسی فرد یا گروہ کو ان کی نسل، جنس، مذہب، معذوری، یا کسی اور شناخت کی بنیاد پر کم تر یا نشانہ پر رکھنے کی کوشش کرنا یا ان کی صلاحیتوں کے حوالے سے سوالات اٹھانا۔ یہ اعمال اکثر لاشعوری تعصبات سے پیدا ہوتے ہیں۔ 
واضح یا کھلی بات کی نسبت اسے پہچاننا یا اس کا سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ باتیں lines between کی جاتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کے اثرات انتہائی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی خاتون لیڈر سے پوچھا جائے: "کیا آپ واقعی اس ذمہ داری کو سنبھال سکتی ہیں؟ یا کوئی کام انھیں نہ دینا یہ کہتے ہوئے کہ آپ عورت ہیں نہیں کر سکیں گی۔ یہ ان کی صلاحیت پر جنس کی بنیاد پر شک کرنا ہے۔
اسی طرح دفاتر میں بار بار کسی باصلاحیت اور ڈلیور کرنے والے ورکر سے کہنا کہ ہمیں آپ سے زیادہ صلاحیت کے افراد کی تلاش ہے۔ اسے اس کی صلاحیت کے حوالے سے چیلنج کرنا ہے۔ بار بار کسی مخلص دفتر کے فرد سے کہنا کہ ہمیں خوف ہے کہ آپ ہمارے پراجیکٹ پر قبضہ نہ کر لیں۔ 
کسی معذور شخص سے کہا جائے: زندگی گزارنے کے لیے آپ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ان کی مکمل شخصیت کو ایک حوصلہ افزا کہانی تک محدود کر دینا۔ بار بار ساتھیوں کی اتھارٹی کو انکار کے ذریعہ چیلنج کرنا ، یا ان کی اتھارٹی پر سوالات اٹھانا۔
مثال کے طور پر، بار بار کسی کو گفتگو میں اشارتاً باتیں کرنا ، مبہم گفتگو کرنا ، اور واضح بات نہ کرنا اسے غیر محسوس انداز میں احساس ندامت میں مبتلا کرنا۔ ان غلطیوں پر جو کسی شخص نے کی نہیں غیر محسوس انداز میں اسے ان میں شامل کرنا۔غیر شعوری تعصبات کی بنا پر قابل ملازمین کو پروموشن سے محروم کیا جائے۔
 یہ سب کتنا پریشان کن ہو سکتا ہے اس شخص کے لیے خاص طور پر جو مائیکرو ایگریشن اور اس کی حقیقت سے آشنا ہو۔ بہ نسبت اس شخص کے جسے اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ 
یہ باتیں پہلی نظر میں بے ضرر معلوم ہو سکتی ہیں، لیکن یہ غیرمحسوس انداز میں فرد کی شناخت یا صلاحیت پر سوال اٹھاتی ہیں۔ 
مائیکروایگریشن ایک بات کے طور پر چھوٹا معلوم ہو سکتا ہے، لیکن اس کا مسلسل سامنا فرد کے جذباتی تناو¿ کو بڑھا سکتا ہے۔ جو لوگ بار بار مائیکروایگریشن کا سامنا کرتے ہیں وہ اکثر خود کو خارج شدہ ، کم تر، مایوس، اور بے وقعت محسوس کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ، یہ اضطراب اور افسردگی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ سماجی یا پیشہ ورانہ تعلقات سے الگ ہونے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ عموماً مائیکرو ایگریشن کا سامنا کرنے والا فرد قوت فیصلہ سے محروم ہونے لگتا ہے۔ اس کی پیداواریت اور تخلیقی صلاحیتوں میں کمی واقعی ہونے لگتی ہے۔ 
غیر حاضری اور ملازمت چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ، مائیکرو ایگریشنز ورک پلیس کلچر کو نقصان پہنچاتی ہیں، جس کے نتیجے میں فرقے بنتے ہیں اور تعاون کی کمی ہوتی ہے۔مائیکروایگریشن اکثر لاشعوری تعصبات سے جنم لیتے ہیں۔ لوگ کسی کی صلاحیت سے ان سکیور ہو سکتے ہیں ,اس کی شخصیت کے حوالے سے بھی تعصب کا شکار ہو سکتے پیں۔ تعصب کے لیے کوئی خاص وجہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ لوگ اپنی تربیت اور ماحول کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ، جو مائیکروایگریشن کا ارتکاب کرتے ہیں، یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ان کا یہ عمل نقصان دہ ہے۔ جب کہ معاشرے میں یہ ایک معمول کا رویہ بن چکا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں ایسا بھی کیا کہہ دیا یہ تو عام سی بات ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ عام سی باتیں نہیں ہوتیں۔ جب ایک بات مسلسل یا بار بار دہرائی جائے تو یہ ایک با شعور شخص کے لیے چیلنجنگ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ مائیکرو ایگریشن کو سمجھتا ہے۔ جب کہ جس کا شعور اس سطح پر نہیں اسے اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ 
مائیکروایگریشن کا سامنا کرنے کے لیے شعور حاصل کرنا پہلا قدم ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ہمارے الفاظ اور اعمال، چاہے وہ نادانستہ ہوں، گہرے اثر رکھتے ہیں۔ یہاں اس سے نمٹنے کے کچھ طریقے ہیں۔ ہمیں بیٹھ کر اپنی شخصیت کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم بھی غیر ارادی طور پر کسی تعصب کا شکار تو نہیں ہیں ؟ یا ہمارے ایسے جملے جو ہم مزاق میں بھی کہیں کسی کی دل آزاری کا سبب تو نہیں بنتے؟ خاص طور پر لیڈرشپ رولز کے افراد کو اپنی گفتگو میں محتاط الفاظ استعمال کرنے چاہیں۔ انکی ذمہ داری بڑی اور ان عہدے کے تقاضوں میں ان کا ظرف بھی بڑا ہونا چاہیے۔ انھیں چاہیں کہ وہ اس حوالے سے خود اپنا محاسبہ بھی کریں۔ اور اگر ان کے ماتحت افراد ان کے ایسے رویوں کی نشاندہی کریں تو اس کی اصلاح کریں۔ بغیر دفاعی رویے کے سنیں۔ ان کے تجربے کو تسلیم کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔
ہمیں بھی چاہیے کہ مائیکروایگریشن دیکھنے پر نرمی سے اس کی نشاندہی کریں اور مثبت مکالمہ شروع کریں، مائیکرو ایگریشن کا ارتکاب کرنے والے فرد سے بات کریں۔ انھیں بتائیں کہ ان کے مسلسل چھوٹے چھوٹے اعمال آپ کے اندر کس طرح ایگریشن کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ وقت اس بات کو سمجھنے کا ہے کہ ہمیں پڑھ لکھ کر شعور حاصل کرنے کے بعد سب سے اہم یہ سیکھنا ہے کہ ایسے جملے اور لفظوں کو گفتگو کا حصہ بنائیں جو دوسروں کے لیے حوصلہ افزا ہوں۔ نہ کہ ان کی پریشانیوں میں اضافہ کا سبب بنیں۔ کیونکہ ہر شخص حوصلہ افزائی اور احترام ڈیزرو کرتا ہے۔ 
مائیکروایگریشن معمولی لگ سکتی ہے، لیکن اس کا اثر شدید ہے۔ اپنے الفاظ اور اعمال پر زیادہ محتاط رہ کر، ہم ایسے ماحول پیدا کر سکتے ہیں جو تنوع اور احترام کو فروغ دیتے ہیں۔ ہمارے طرز عمل میں چھوٹی تبدیلیاں کسی کی زندگی میں زبردست فرق لا سکتی ہیں۔ مائیکروایگریشن کو پہچاننا اور اس سے نمٹنا نہ صرف نقصان سے بچنے کا معاملہ ہے بلکہ یہ ہماری مشترکہ انسانیت کو اپنانے کی بات بھی ہے۔ مائیکرو ایگریشن کو سمجھنا احترام کو فروغ دینا ہے۔ آئیں ہم مل کر اپنی گفتگو کو ایسا بنائیں جس سے سامنے والے کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور وہ کسی رد عمل میں مبتلا نہ ہو۔

مزیدخبریں