سردار عبدالخالق وصی
یوں تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ھے ایک وقت تھا کہ ٹیلیفون ایکسچینج یا گھر سے کسی دوسرے شہر یا ملک میں بات کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور جب کال ملتی تو اتنی اونچی آواز میں بات کرنا ھوتی کہ گھر کی بات پورا محلہ سنتا تھا اور جس وقت اس کال کے بل کی ادائیگی کی جاتی تو جیب خالی ھو جاتی تھی لیکن سوشل میڈیا نے اب اتنی ترقی اور قربت پیدا کر لی ھے کہ آپ ھزاروں میل دور بیٹھ کر نہ صرف مفت با آسانی بات کرسکتے ھیں بلکہ رمضان کریم میں شبینہ وتراویح اور حج کے دوران خطبہ و مناسک حج کے روح پرور مناظر دیکھنا چائیں ، نکاح و شادی کی محفل سجانا چائیں،جلسے سے خطاب کرنا یا سننا چائیں، اسکی آپکو کوئی قیمت بھی نہیں ادا کرنی پڑتی اور اگر کرنی بھی پڑے تو اتنی کم کہ تصور سے بھی کم آج کم و بیش بالعموم ھر شخص نے اپنے ٹیلیفون میں دو دو تین تین سمیں محفوظ کر رکھی ھیں۔اس ٹیلیفون اور ڈیجیٹل ڈیوائسز نے آپکی روزمرہ زندگی کی بہت سی ضروریات کا احاطہ کر لیا ھے کہ آپ کو گھڑی کی ضرورت رھی نہ کیمرے کی حساب کتاب کے لئے کاغذ پنسل کی ضرورت رھی نہ لکھنے کے لئے روشنائی کی خط و کتابت اب آپ کا ایشو رھا نہ ڈاک خانوں اور کورئیر سروسز کی محتاجی الغرض اس سوشل میڈیا نے آپ کو اپنے سے اپنے عزیز و اقارب اقدار و اطوار سے بھی کسی حد تک بے نیاز و بیگانہ سا کردیا ھے اس کے مثبت اور منفی پہلوو¿ں پر بات کی جائے ضخیم کتب بھی ناکافی ھوں لیکن اس سوشل میڈیا کے تمام تر مثبت پہلوو¿ں کے ساتھ اسکے منفی پہلو ایسے ھیں کہ ان سے بچنے کی بھی اشد ضرورت ھے اور ان سے ھونے والے نقصانات سے خاصکر اپنی جواں سال نسل کو بچانے اور اس کو قابو میں لانے اور اسکے منفی پہلوو¿ں سے بچنے کے لئے ضروری قانون سازی کی بھی ناگزیر ضرورت ھے۔
پاکستان میں دسمبر 2024 کے اختتام تک موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار دیکھ کر آدمی ورطہ حیرت میں مبتلا ھو جاتا ھے۔
208 ملین +موبائل استعمال کرنے والے ھیں188.9ملین سیلولر موبائل، یہ پاکستان کی کل آبادی کا تقریبآ 78 فیصد ھیں۔
سوشل میڈیا کا استعمال جنوری 2024 تک 71.79 ملین تقریباً پاکستان کی کل آبادی کے ساڑھے انتیس فیصد آبادی سے زاھد،جنوری 24 کے اوائل میں فیس بک صارفین 44.50 ملین،انسٹاگرام 17.30 ملین یو ٹیوب 71.70 ملین، ٹک ٹاک 54.38 ملین، 18 سال سے زاھد عمر کے نوجوان صارفین لنکڈ ان 12.00 ملین، فیسبک مسینجر 11.95 ملین۔ان میں سے 5. فیصد بھی اگر سوشل میڈیا کا منفی یا شرانگیزی پر مشتمل استعمال کریں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ کس قدر خرابی ھوسکتی ھے۔ سوشل میڈیا کا دائرہ کار اب اس قدر وسعت اختیار کر چکا ھے کہ اس کے فوائد اور نقصانات کا احاطہ کرنا بھی مشکل ھے اتنی بڑی صارفین کی بے قابو و بے سمت تعداد کے لئے اگر قانون سازی کے عمل سے غفلت برتی جائے اور اس سسٹم کو unattended چھوڑ دیا جائے اور اس قومی ذمہ داری کو نظر انداز کیا جائے تو خرابی کہاں جا پہنچے گی اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ھے۔
سوشل میڈیا نے ھر شعبہ زندگی کی طرح پرنٹ میڈیا کو بھی مات دے دی ھے پہلے ماہنامے،پندرہ روزے، ھفت روزے ترقی کے مدارج طے کرتے روزناموں میں تبدیل ھوئے پھر الیکٹرانک نشریات یعنی ٹیلی ویثرن نے ترقی کی منازل طے کرتے اخبارات کو مات دی جنکی خبروں کے حصول کے لئے کتنے جتن کرنے پڑتے تھے اور اب سوشل میڈیا پر براہ راست سب خبریں تجزیئے بس آپکی ھتھیلی اور شہادت کی انگلی کی دسترس میں موجود رھتے ھیں اور اب لکھنے سے بھی قدرے برائ ت ھوگئی ھے آپ ٹیلیفون سامنے رکھ کر بولیں تو مطلوبہ عبارت سامنے نمودار ھو جاتی ھے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس مصنوعی ذھانت نے زندگی اسقدر آسان اور سہل کردی کہ اب کچھ عرصہ بعد ممکن ھے ھم اس مصنوعی زھانت کے معجزے فضا میں موجود صدیوں پرانے مدفون بزرگوں کی آوازوں کو بھی سن پائیں۔ تصور سے بھی زیادہ دستیاب سہولیات زرائع ابلاغ نے جہاں ھمیں بے حد و حساب آسائشیں فراھم کی ھیں وھاں ھمیں اسی تناسب سے چیلنج بھی درپیش آ سکتے ھیں اور در پیش بھی ھیں۔
اس سوشل میڈیا کی بے ھنگم اپروچ اور بے قابو دستیابی نے افراد کی زندگیوں کو اذیت اور ملکوں کی قومی سلامتی کو ایک خطرے میں ڈال دیا ھے آج ھمارا ملک پاکستان دھشت گردی کے جس عفریت کا شکار ھے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ اس سوشل میڈیا کا ھی کمال ھے کہ دھشت گردوں،ملک دشمنوں اور بیرون و اندرون ملک میں فیک اور منیجڈ اس "ڈیجیٹل انقلاب" سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال نے ملک کی سلامتی اور عام آدمی کی زندگیوں کو داو¿ پر لگا دیا ھے۔ ھمارے آرمی چیف سید عاصم منیر اس سوشل میڈیا کو شیطانی میڈیا سے موسوم کرتے ھیں اس لئے کہ وہ اسکے نقصانات اور اسکے پھیلاو¿ پیچھے اغیار کی نیتوں کو بھی بھانپتے ھیں کہ وہ اس شیطانی ایجاد سے بالخصوص مسلمانوں کو اور ھمارے نوجوانوں کو انتشار اور اپنے دین سے بے بہرہ کرنے اور رکھنے کے لئے کس حکمت عملی سے لگے ھوئے ھیں۔
یہ ھمارے سکیورٹی اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ھی ھمت ھے کہ وہ اس یلغار کا بھی مقابلہ کر رھے ھیں اور ملک کی نظریاتی و دفاعی سرحدوں کا تحفظ کر نے میں شب و روز مصروف عمل ھیں۔
آزادی تحریر و تقریر ھر شہری کا بنیادی حق ھے دنیا بھر کے آئین و قوانین میں شہریوں کے اس حق کے تحفظ کی ضمانت موجود ھوتی ھے آئین پاکستان نے بھی اپنے شہریوں کے مسلمہ حقوق کی ضمانت فراھم کی ھے جہاں کہیں ان حقوق کی تلفی ھوتی ھے عدالت ھا مجاز اسکی حفاظت پر مامور ھوتی ھیں ھیومن رائٹس اور صحافت سے وابستہ ارباب دانش، تنظیمیں اور ادارے بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لئے فعال، متحرک و سرگرم عمل ھیں لیکن سوشل میڈیا کے بے مہار، شر انگیز اور وطن دشمن استعمال پر ایک گرفت اور قانون کی بھی ناگزیر ضرورت ھے جو ان دھشت گردوں کے مذموم مقاصد میں رکاوٹ بنتے ھوئے اسکا سدباب بھی کر سکیں۔
اس وقت پاکستان اندرونی و بعض پڑوسی ممالک کی جانب سے شدید چیلنجز کا شکار ھے بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے علاقوں میں ملکی سلامتی و قومی و دفاعی اداروں ڈیوٹی پر مامور ملازمین اور یہاں تک کے مسافروں کی جانوں کو شدید خطرات درپیش رھتے ھیں اور یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے زریعے ھی انجام دیا جارھا ھے بلوچستان میں BLA کے نام سے ایک دھشت گرد تنظیم ایک طرف تو پر امن شہریوں کے قتل وغارت میں مصروف عمل رھتی ھے اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر مذموم پروپیگنڈے کے زریعے نفرت آمیز اور شر انگیز ڈیجیٹل لٹریچر اور جعلی اور من گھڑت تصاویر خبریں پوسٹس شائع کر کے عام لوگوں کو ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن پھیلا رھے ھیں اس تنظیم کو امریکی محکمہ خارجہ نے جولائی2019 میںSDGT سپیشل ڈیزگنیٹڈ گلوبل ٹررسٹ گروپ قرار دیا ھے یہ اور اس طرح کی دیگر تنظیمیں عام عوام کو گمراہ کن پروپگینڈے کے زریعے جھوٹی معلومات واطلاعات پھیلا کر عام عوام سے ملک کے دفاعی اداروں کے خلاف ھمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ھیں۔ گزشتہ دنوں ان دھشت گرد تنظیموں سے وابستہ شر پسندوں کی جانب سے Stop Baluch Genocide کے نام سے سٹکر تقسیم کئے جاتے رھے اور سوشل میڈیا کے زریعے انکو پھیلایا گیا تاکہ یہ پروپیگنڈہ کیا جائے کہ بلوچستان میں ایسا ھو رھا ھے اس سے پاکستان جو ایک پر امن انسانی اقدار کا امین اور civilized ذمہ دار ملک ھے اسکی بین الاقوامی goodwill خراب کی جائے اور پاکستان پر بیرونی دباو¿ بڑھایا جائے کہ یہ ملک اپنے شہریوں پر تشدد اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ھے پاکستان کے خلاف ان مذموم حرکات میں جہاں ھمارے دشمن متحرک رھتے ھیں وھاں بعض اوقات اسطرح کے شرانگیز پروپیگنڈا سے عام شہری بھی دھوکہ کھا جاتے ھیں اور وہ بھی نا دانستہ طور پر اس پروپیگنڈا کو پھیلانے میں حصہ دار بن جاتے ھیں۔
ان مذموم حرکات کے خلاف ایکشن صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ھی نہیں ھوتی بلکہ ملک کے ھر محب وطن شہری کی بھی یہ اخلاقی و قانونی ذمہ داری ھے کہ وہ ایسے منفی پروپیگنڈا کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں اور سوشل میڈیا پر نظر رکھیں کہ کوئی دانستہ یا نادانستہ ملک کی سلامتی اور لوگوں کی زندگی،جان و مال کو تو نقصان نہیں پہنچا رھا یا انکو دھوکہ دیتے ھوئے غلط اطلاعات و معلومات تو نہیں پھیلا رھا۔
یہ وطن کسی ایک سیاسی جماعت،حکمران طبقہ یا کسی واحد ادارے کا نہیں ھے بلکہ یہ 25 کروڑ سے زاھد ھر شخص کا بھی ھے اور یہی اسکے مالک اور محافظ بھی ھیں۔
ضرورت اس امر کی ھے آئین و قانون ساز و قانون نفاز اداروں سے لیکر عام شہری کی یہ بنیادی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنے آس پاس کہیں بھی ملک کے خلاف ھونے والی سازشوں پر گہری نظر رکھے اور ذمہ دار ادارے ان مذموم حرکات کے خلاف سخت قوانین کا اطلاق کریں گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے پیکا قوانین میں چند ضروری ترامیم کی گئیں ان پر یقیناً خدشات اور تحفظات کا بھی اظہار کیا گیا ھے ان خدشات و تحفظات کا سدباب متعلقہ شعبوں کی ذمہ داری ھے کہ کوئی بے گناہ و بے قصور اسکا نشانہ نہ بنے لیکن سرے سے ھی ایسے قوانین کی مخالفت اور اسکے خلاف منفی پروپیگنڈا مناسب نہیں ھے اگر مجرموں کو بروقت کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سخت قوانین اور فوری سزا یابی کو یقینی نہ بنایا جائے تو عوام کا حکومتوں اور اداروں پر اعتماد ھی بحال نہیں رھتا عدالتی نظام سے مایوسی ھی جرائم میں حوصلہ افزائی کا موجب ھوتی ھے۔اسوقت پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ھیں گزشتہ عرصے میں پاکستان کو ڈیفالٹ ڈکلیر کرانے کے لئے بھی کوشش ھوتی رہیں اور فیٹف (FATF)کی تلوار بھی سر پر لٹکتی رھی الحمدللہ حکومت اور ھمارے تمام مالیاتی، دفاعی اور دیگر اداروں کی کاوشوں سے اس صورت حال کا سدباب ھوا اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی کوششیں لائق صد تحسین و تبریک ھیں کہ انہوں نے روایتی جنرلز سے بڑھکر ملکی کی معیشت اور ڈیفالٹ کے خطرے سے ملک کو نکالنے کے لئے اھم کردار ادا کیا جس باعث ملک کی معیشت خاصی بہتری کی طرف گامزن ھوئی۔ مہنگائی کی شرح میں قابل قدر کمی دیکھنے کو نظر آرھی ھے دیگر درپیش معاملات پر بھی پیشرفت کا عمل جاری ہے اور امید کی جارھی ھے کہ پاکستان بہت جلد نہ صرف اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو پائے گا بلکہ قومی و بین الاقوامی سطح پر کھویا ھوا وقار اور افتخار حاصل کر پائے گا۔وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف اپنے قائد محمد نواز شریف کے ویثرن و راھنمائی میں شب وروز محنت کر رھے ھیں پنجاب میں محترمہ مریم نواز شریف سندھ بلوچستان کی حکومتیں بھی اپنے اپنے مدار و دائرہ اختیار میں عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کمر بستہ ھیں جس کے مثبت نتائج سامنے نظر آرھے ھیں۔حال ھی میں وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کی خصوصی ھدایات پر سختی سے عملدرآمد کرتے ھوئے شہروں میں تجاوزات کے خاتمے سے شہروں کا منہ نقشہ بڑے عرصہ بعد صاف شفاف نظر آنا شروع ھوا ھے۔پنجاب حکومت کا یہ اقدام یقیناً قابل تحسین و تبریک ھے اسے مستقل بنیادوں پر تسلسل حاصل رھنا چاھئے۔
ھمارے عساکر پاکستان کے چیف سید عاصم منیر حکومت کی بھرپور معاونت کرتے ھوئے شدید مشکلات و فوجی نوجوانوں کی قیمتی جانوں کے نقصانات کے باوجود دھشتگردوں اور ڈیجیٹل دھشت گردی کے خلاف نبرد آزما ھیں یقیناً انکی یہ کاوشیں رائیگاں نہیں جائیں گی قلات اور دیگر علاقوں میں دھشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ھے خیبر پختونخوا میں اگر صوبائی حکومت وفاق اور پنجاب پر پے در پے "لشکر کشی" کے بجائے صوبے میں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ھوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دے تو یہ نا ممکن نہیں کہ اس دھشت گردی کے ناسور کو نکیل دی جا سکے۔ ایک عزم اور جذبے کی ضرورت ھے ارباب حکومت، صاحبان بصیرت و حکمت، کار پردازان عدالت اور محبان مملکت ملکر جدوجہد کریں تو
آج بھی ھو جو ابراھیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ھے انداز گلستان پیدا۔
استحکام پاکستان اور خوشحالی پاکستان کے لئے جہاں سب ادارے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا اپنا فرض عین سمجھیں وھاں ھمارے نوجوان جن سے ملک کا مستقبل وابستہ ھے وہ بھی تعلیم و تربیت کو اپنے بہتر مستقبل کے حصول کے لئے استعمال کرتے ھوئے اس ڈیجیٹل مہارت کے استعمال میں ذمہ دار اداروں کی راھنمائی بھی کریں اور معاونت بھی کہ اس سے ملک کی ترقی بھی وابستہ ھے اور استحکام بھی ھمارا مستقبل بھی ایک جمہوری، روشن خیال اور قوموں کی فہرست میں باعث افتخار پاکستان سے وابستہ ھے افراد اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے فراغت کی طرف گامزن رھتے ھیں ادارے تادیر قائم رھتے ھیں انکی روایات اور اقدار پروان چڑھتی رھتی ھیں شر انگیزی وطن دشمنی زیادہ عرصہ نہیں پنپ سکتی نفرتیں ترقی کے زینے نہیں طے کرتیں بلکہ محبتیں پھیلانے سے ھی ھم آگے بڑھ سکتے ھیں اور محبت کے ساتھ ڈسپلن اور آئین و قانون کی پاسداری ھمارا ماٹو اور نصب العین ھونا چائیے