بلا سود بنکاری پر پیش رفت،سعید احمد کا موقف(۲)

جیسا کہ آپ جانتے ہیں پاکستان میں بنکنگ کا سب کاروبار مختلف قوانین کے تحت کیا جاتا ہے۔ ان میں بنکنگ کمپنی آرڈیننس (BCO) اور سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ بد قسمتی سے ان دونوں قوانین میں اسلامی بنکنگ کے حوالہ سے کوئی الگ ابواب نہیں ہیں۔ اسلامی بنکنگ سے متعلق تمام قوانین اور ضوابط، سودی بنکاری کے ساتھ ساتھ ہی چلتے چلتے بیان کئے گئے ہیں۔
اس سلسلہ میں میں نے ایک تجویز دی تھی کہ اسلامی بنکاری کے لئے ایک علیحدہ قانون بنایا جائے جسے اسلامک بنکنگ کمپنی آرڈیننس (IBCO) بھی کہہ سکتے ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی بنکنگ ریگولیشن کمیٹی نے بھی بحث و مباحثہ کے بعد اسکی تائید کردی تھی۔ اسکے لئے مشہور قانون دان ڈاکٹر طارق حسن کی قیادت میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی کہ قانون کا ڈرافٹ تیار کیا جائے۔ اس سلسلہ میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کے آفیسرز نے غالباً ملائشیا سوڈان، مصر، اردن وغیرہ کا سفر بھی کیا اور وہاں کے تجربات سے نتائج اخذ کئے۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ اگر الگ قانون بنانے میں کچھ رکاوٹ ہو تو کم از کم موجودہ بنکنگ کمپنی آرڈیننس میں اسلامی بنکاری کے لئے الگ ابواب شامل کئے جائیں۔ اس سے اسلامی بنکوں کواپنا کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس قانون میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ اسلامی بنکوں کو اجازت دی جائے کہ وہ تجارتی، صنعتی اور دوسرے شعبوں میں کاروبار کرسکتے ہوں۔ اس میں اپنے کھاتہ داروں کے پیسے کی سرمایہ داری کرسکیں۔ اسی طرح نفع نقصان کی بنیاد پر شراکت، اجارہ اور دوسری سہولیات اپنے گاہکوں کو فراہم کر سکیں گے۔
روایتی بنکاری کے لئے دنیا بھر میں ڈپوزٹرز کے پیسوں کے تحفظ کے لئے مرکزی بنک یا خصوصی اتھارٹیز بہت واضح قوانین اور ضوابط مرتب کرتی ہیں۔ ان ضوابط میں نہ صرف اصل زر بلکہ اس پر دیئے جانے والے سود/منافع کے بارے میں بھی مفصل ریگولیشن بنائے جاتے ہیں۔ اسلامی بنکنگ میں چونکہ شرعاً تو صارفین کا پیسہ سرمایہ کاری (انوسٹمنٹ) کی مد میں آتا ہے جس پر نفع/نقصان کی شرح کا اصولاً تو پیشگی تعین نہیں کیا جا سکتا یا اصل سرمایہ میں بڑھوتی یا کمی کی بھی اصولاً بنک کو ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہئے اور یہ رِسک (risks) سب بنک کے کھاتہ دار کے حصہ میں آتے ہیں، لیکن مرکزی بنک یا ریگولیٹری اتھارٹیز اس ضمن میں مخمصہ کا شکار ہیں کہ اس سے کس طرح بنک کے معاملات سے منسلک کیا جائے۔ کیا یہ بنک کے سرمایہ کا حصہ ہے؟ یا اسے الگ سے کسی فنڈ کا حصہ بنا کر اس کے بارے میں بنک کی قانونی ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔پاکستان میں اسلامک بنکنگ کے بارے میں کئی حلقوں میں بہت سے شکوک شبہات پائے جاتے ہیں۔صارفین میں اعتماد بڑھانے کے لئے اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ اسلامی بنکنگ کے پرڈکٹس کو آسان اور قابل فہم زبان میں عوام کو سمجھایا جائے۔ روایتی سودی بنکاری اور اسلامی بنکنگ کی سروسز کا فرق واضح کیا جائے۔ اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلامی بنکنگ کے بارے میں عموماً یہ تاثر ہے کہ یہ فقط شراکت داری کی بنیاد پر ہی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ شراکت داری اسلامک فنانس کا بڑا حصہ تو ہے لیکن اس کے علاوہ اجارہ اور قرض پر مبنی پراڈکٹس بھی شریعہ کی روح سے تضاد نہیں رکھتے۔ البتہ ان سے متعلق اصولوں کی بھر پور وضاحت کی اشد ضرورت ہے۔ اجارہ ایک ایسا پروڈکٹ ہے جو سودی اور غیر سودی بنکنگ میں ایک دوسرے سے قریب تر ہیں۔ لیکن کچھ فرق بھی موجود ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے صارفین اور خُود اسلامی بنکنگ کے کچھ ماہرین بھی اسلامی بنکنگ کے پراڈکٹس کا موازنہ صدیوں سے مروّج روائتی سود پر مبنی نظام سے کرتے رہے ہیں۔ وہ اکثر اسلامی بنکنگ پراڈکٹس کو روائتی بنکنگ کی خصوصیات سے مزین دیکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ معاملات میں تو یہ صارفین کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ٹریڈ فنانسنگ کے لئے ایل سی وغیرہ لیکن کچھ معاملات میں صارفین کی سوچ روائتی نظام سے اس قدر مغلوب ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ اس دائرہ سے باہر نہیں آپاتی۔
اس مسئلہ کے ازالہ کے لئے سٹیٹ بنک آف پاکستان کے زیر اثر بہت سی میڈیا مہم (کمپین)، عوامی میٹنگ، میڈیا میں معیشت سے منسلک تجزیہ نگاروں اور پارلیمنٹیرین کے ساتھ علماء کرام سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ جو بھی سوالات اور شکوک و شبہات ہوں ان کی وضاحت کی جا سکے۔ یہ ایک جاری و ساری رہنے والا سلسلہ ہے۔اس مسئلہ کے حل کے لئے میں نے تجویز کیا کہ یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں معیشت کی تعلیم میں اسلامی فائننس کے کورسز شامل کئے جائیں اور مدارس اور دارالعلوم کے نصابات میں ماڈرن بنکنگ معاشیات/ اکنامکس کے کورسز شامل کئے جائیں۔ اس طرح ملک میں ایسے ماہرین معاشیات پیدا ہوں روایتی تعلیم کے ساتھ شرعی اعتبار سے بھی اقتصادیات میں اچھی دسترس رکھتے ہوں۔ اس طرح اوپر بیان کردہ سٹاف میں کمی کو پورا کیا
جا سکے۔اس سلسلہ میں، راقم نے آئی بی اے، کراچی، کراچی یونیورسٹی، کراچی بزنس سکول، لمز , پنجاب یونیورسٹی، لاھور سکول آف اکنامکس، جی سی یونیورسٹی، لاہور، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد، رفاہ یونیورسٹی، اسلام آباد، انسٹیچوٹ آف مینجمنٹ سائنس، پشاور جا کر وہاں کے وائس چانسلرز سے ملاقات کیں اور ان کے نصاب میں اسلامک فنانس اور متعلقہ شریعہ تعلیم کو شامل کرنے کی ترغیب دی اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔اسی طرح دارالعلوم نعیمیہ، دارالعلوم کورنگی کراچی، دارالعلوم رشیدیہ، کراچی، دارالعلوم اشرفیہ، لاہور میں کئی بار جاکر وہاں اسلامک اقتصادیات کے مضامین کی تعلیمات کے موضوع پر بات چیت کی اور مزید مفتیوں جن کے پاس اسلامک بنکنگ میں تخصص ہو، تیار کئے جائیں۔
شریعہ بورڈ اور اس میں شامل مفتیان کرام کے لئے ایک دائرہ کار Sharia Board Frame work وضع کیا گیا اور اسکے نفاذ کے لیے خاطر خواہ وقت دیا گیا۔ اس سے منسلک ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ عمومی آڈٹ کے علاوہ اسلامی بنکوں کو شریعہ آڈٹ کروانا بھی لازمی ہوگا۔ شریعہ آڈٹ سے اس بات کی تصدیق مقصود ہے کہ صارفین کو اسلامی بنکاری کے نام پر جو سہولیات اور خدمات مہیا کی جارہی ہیں آیا وہ واقعی طے شدہ پیمانوں پر پوری اترتی ہیں یا نہیں۔