پاکستان کرکٹ بورڈ نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو‘ صحافت اور صحافیوں کو ضرور زیر بار کیا ہے۔ سیاسی حالات کی پکرنگی کے باعث روز کوئی موضوع نہ ملتا ہو تو بورڈ اتنا مواد فراہم کر دیتا ہے کہ جو کوئی جس قدر چاہے لکھ سکتا ہے۔ اب دور کیا جانا ہے‘ آج جبکہ ہمارا ذہن ایک مفلس کی جیب کی طرح خیالات سے خالی تھا‘ کرکٹ ٹیم کے ’’کارنامے‘‘ نے اتنا مواد مہیا کر دیا ہے کہ ایک چھوڑ کئی ’’جوسی‘‘ اور چٹ پٹے کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ پہلے توان کا دنیا کے دوسرے کونے پر واقع ملک نیوزی لینڈ میں جانا ہومر کی Oddesy کے مترادف تھا۔ کرونا کے تلاطم سمندر میں دبئی تک کا ’’کروز‘‘ اور پھر وہاں سے نیوزی لینڈ تک 16 گھنٹے کی نان سٹاپ پرواز‘ وہاں پہنچ کر پھر ایک چھوٹی سی اڑان۔ اسکے بعد مصائب کی ایک الگ داستان شروع ہوتی ہے۔ چودہ دن تک ہوٹل کے بند کمرے میں ’’قید تنہائی‘‘ جسے قرنطینہ بولتے ہیں۔ چند منچلے کھلاڑیوں نے ضابطے کی خلاف ورزی کی اور چوری چھپے ہوا خوری کیلئے باہر نکل گئے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ آ جکل کھلی فضا میں بھی یہ بیماری گھات لگائے بیٹھی رہتی ہے۔ بدقسمتی سے پکڑے گئے۔ ٹیسٹ مثبت آیا۔ اس پر مقامی حکام بڑے جزبز ہوئے۔ ڈانٹ ڈپٹ کے علاوہ واپس وطن بھیجنے کی دھمکی دیدی کھیل سے پہلے جو نیٹ پریکٹس ہوتی ہے‘ اس سے بھی محروم رکھا۔ اس کے بعد جو ہوا اس کیلئے میزبانوں کی قومی زبان نے کئی محاورے وضع کر رکھے ہیں۔ BOLT FROM The BLOE .....out of the FRYING PANINT The Fire وغیرہ ۔ تین اہم کھلاڑی زخمی ہو گئے۔ کپتان بابر اعظم‘ امام الحق اور شاداب خان۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ تو شیر نے ہی کرنا تھا۔ 20/20 میں شکست۔ ٹیسٹ میچوں میں شکست‘ فاش جیسے کرکٹ کی زبان میں ’’وائٹ واش‘‘ کہتے ہیں… کھیل میں ہار جیت توہوتی ہی رہتی ہے‘ لیکن اس قدر بے عزت ہو کر آنے کو ’’ڈرم آئوٹ‘‘ کہتے ہیں۔ فی زمانہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ مخالف ٹیم نے ایک اننگ میں چھ سو اڑتیس رنز بنا لئے ہوں۔ کیویز نے باولروں کی اس طرح پٹائی کی جس طرح عرب مست اونٹ کو مارتے ہیں۔ انکی بلبلاہٹ اور گھبراہٹ دیدنی تھی۔ ایسے ماحول میں بیٹسمین کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ انکی بھی ’’تو چل میں آیا‘‘ والی کیفیت تھی۔
کووڈ 19 کا بہانہ بنا کر دورے سے بچا جا سکتا تھا۔ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑتا۔ اصل مسئلہ حلوے مانڈوں کا تھا۔ اڑن کھٹولوں کی میں مفت سفر کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ بیس ہزار فٹ کی بلندی۔ شاخ یاسمین کی طرح مچکتی‘ لٹکتی‘ چہکتی ہوئی ایئر ہوسٹز‘ مشروبات اور مالاکوٹ کا کوہ ندا۔ حفیظ جالندھری مرحوم نے لکھا تھا کھل گیا ہے ملک و ملت پر سلیمانی کا راز‘ وہ نظروں سے کافی پلاتی ہوئی۔ اگر شوق ہو پینے کا پی آئی اے (PIA) ۔ شکست کی صورت میں لعن طعن تو کھلاڑیوں پر ہوتی ہے۔ ارباب بست و کشاد ’’بندر کی بلا طویلے کے سر‘‘ باندھ دیتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل انگلینڈ سے شروع ہوا۔ اسے لارڈز کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک طرح کے پانچ روزہ پکنک ہوتی۔ فراغت پسند لوگ سنہری دھوپ میں بیٹھ کر بیئر کے گلاسوں کو ہاتھ میں پکڑے خط اٹھاتے تھے اور ایک دوسرے کو نت نئے لطیفے سناتے تھے۔ اس دور میں ایک لطیفہ بڑا مشہور ہوا۔ ’’سر اور کینٹ کائونٹی کے درمیان میچ ہو رہا تھا۔ ایک چھوٹا بچہ بھیڑ کو چیرتا ہوا بمشکل باپ کے پاس پہنچا۔ بولا ڈیڈی میں ایک بری خبر لایا ہوں۔ مکان کو آگ لگ گئی ہے۔ سارا فرنیچر جل گیا ہے۔ چھوٹے بھائی ہنوز گھرے ہوئے ہیں۔ ممی باہر بے ہوش پڑی ہے۔ وہ شخص میچ سے نظریں ہٹائے بغیر بولا۔ ماں کو بتائو کہ ادھر اس سے بھی زیادہ بری خبر ہے۔ ہٹن SIR, LEN HUTTON آئوٹ ہو گیا ہے۔
دنیا کے جتنے کھیل ہیں وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتے ہیں۔ فٹ بال‘ ہاکی‘ رگبی‘ ٹینس‘ باکسنگ وغیرہ۔ یہ کئی دن چلتا اور اکثر بے نتیجہ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل یورپ نے اس کو منہ نہ لگایا۔ ہٹلر نے تو اس کا انعقاد قانوناً جرم قرار دیا۔ طوالت کے علاوہ اسکے نخرے ٹخرے دیکھنے والے ہیں۔ اکثر کھیلوں میں کچھ منٹوں کا ایک ہی وقفہ ہوتا ہے۔ کھیلنے کیلئے ایک فٹ بال‘ ہاکی ایک عدد نیکر‘ چند ٹینس کے بال کافی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نیلے پیلے‘ سفید‘ قرمزی‘ نارنجی‘ عنابی اور گلابی ملبوسات صرف اس کھیل میں ہیں۔ چونکہ سارا دن چلنا ہے اس لئے کئی وقفے ہوتے ہیں۔ لنچ بریک‘ ٹی ڈرنکس وغیرہ‘ کھانے پینے کا وافر سامان‘ کیمرے کی آنکھ سارا دن انہیں آزمائشی کام ودہن کرتا دکھاتی دیتی ہے۔ کوئی کیلا کھا رہا ہے تو کسی نے آئس کریم پر ہاتھ صاف کیاہے۔ سارا دن چائے کی چسکیاں چلتی رہتی ہیں۔ کوکا کولا یوں پیتے ہیں جیسے کوئی تھکا ہارا مسافر صحرا کا سفر کرکے جاں بلب لوٹا ہو۔
یہ کھیل ختم ہو جاتا اگر اسے برصغیر میں پذیرائی نہ ملتی۔ پونے دو ارب کی آبادی والے ہندوستان‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں پرستش کی حد تک مقبول ہے۔ پاکستان میں پرستش تو نہیں ہوتی‘ لیکن پھر بھی لوگ انہیں پلکوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان سے محبت کرتے ہیں۔ عمران خان کو ورلڈ کپ جیتے قریباً تیس سال ہو گئے ہیں‘ لیکن ہنوز انہیں کپتان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لوگ اپنے قومی کھیل کبڈی کو بھول گئے ہیں۔ ہاکی کو قریباً فراموش کر دیا ہے۔ فن پہلوانی کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ جب کسی کو پہلوان جی کے نام سے پکارا جائے تو اس میں طنز کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ میدانوں میں‘ شاہراہوں پر‘ گلی محلوں میں چار سو بچے کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اس کھیل میں پیسہ بھی بہت زیادہ آگیا ہے۔ ہر کوئی اسے ہضم بھی نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے اپنی نئی نویلی کار میں عمر اکمل کو ہر چوک پر ٹریفک پولیس کے اہلکاروں سے الجھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ زر کا نشہ شراب کے نشے سے زیادہ تندوتیز ہوتا ہے۔ چونکہ لوگوں کی اکثریت محب وطن ہے۔ جذباتی ہے‘ اس لئے یہ پاکستان کیخلاف شرط بدنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اس کا فائدہ جن کھلاڑیوں نے اٹھایا ہے‘ انکے ناموں کی جھلک جسٹس قیوم صاحب کی رپورٹ میں صاف نظر آتی ہے۔ آجکل جو ’’پلس مائنس‘‘ کی نوک جھونک ہوتی ہے‘ اس کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کھیل کی تنزلی میں اسکے چیئرمینوں کا بھی کافی عمل دخل رہا ہے۔ پر اس قدر LUCRATIVE POST ہے جسکے آگے وفاقی وزیروں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بدقسمتی سے حفیظ کاردار اور نور خان کے بعد کوئی ’’وژن‘‘ اور کھیل کو سمجھنے والا شخص نہیں آیا۔ اکثریت سفارشیوں کی رہی ہے۔ اعجاز بٹ اور ذکاء اشرف زرداری کے خاص آدمی تھے۔ اعجاز بٹ پیپلزپارٹی کے وزیر احمد مختار کا برادر نسبتی تھا۔ ذکا اشرف صاحب جن ’’صفات‘‘ کے مالک ہیں‘ اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ خالد محمود کا شمار میاں نوازشریف کے معالجین خاص میں ہوتا تھا۔ نجم سیٹھی صاحب کو یہ پوسٹ بطور معاوضہ دی گئی۔ ’’پینتیس پنکچر لگانے کے الزام میں‘‘ جب خان الزام ثابت نہ کر سکا تو تلافی مافات ضروری ہو گئی۔ اب مانی صاحب آئے ہیں۔ انکے ناقدین انہیں ’’من مانی‘‘ کہتے ہیں۔ حالیہ دورہ نیوزی لینڈ میں جو خفت اٹھانا پڑی ہے‘ اس میں ان کا بھی نمایاں حصہ ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38