ہفتہ‘ 3 ؍ جمادی الثانی ‘ 1440 ھ ‘ 9 ؍ فروری 2019ء
حکومت سے صلح، ق لیگ کو ایک اور وزارت مل گئی
سیانے پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ق لیگ اور حکومت کے درمیان زیادہ دیر لڑائی چل نہیں سکتی۔ جلد یا بدیر دونوں کے درمیان کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے پا جائیں گے۔ حکومت کو ق لیگ کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے اور ق لیگ کو اقتدار کی وہیل چیئر۔ سو اب دونوں میں منٹو کے مشہور زمانہ افسانے ’’کالی شلوار‘‘کی طرز پر مفاہمت ہو گئی ہے اور اس کی جزئیات آہستہ آہستہ سامنے آئیں گی۔
فی الحال فوری طور پر پنجاب میں ق لیگ سے ایک وزیر لیا جا رہا ہے پہلے بھلا جو وزیر پنجاب میں موجود ہیں وہ کون سے قابل آفریں انقلابی نوعیت کے کام کر رہے ہیں جو اب ایک نئے وزیر کی آمد سے انقلاب آئے گا۔ حکومت نے بھی کانچ کی گولیاں نہیں کھیل رکھیں۔ ق لیگ کے اس وزیر کو بھی کوئی نمائشی قسم کی وزارت دے دی جائے گی۔ جھنڈے والی گاڑی کا کھلونا مل جانے سے وزیر صاحب اور ق لیگ میں بھی اطمینان کی لہر دوڑ جائے گی کہ ناراضگی کا کچھ تو مول وصول ہو گیا۔
ویسے اگر ق لیگ کے رکن کو وزارت بے محکمہ بھی بنا دیا جائے تو بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ وہ پہلے پنجاب اسمبلی کی سپیکر شپ لے کر ہی راضی ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی یہ سادہ منش درویشوں کی جماعت ہے۔ حکمرانوں کو ان سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں‘ اصل خطرہ ایم کیو ایم والے تھے‘ وہ بھی کہیں اب نئے مطالبات اور وزارتوں کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں۔
=…=…=
بھارت میں 15 عورتوں کو نکاح خواں بنا دیا گیا
یہ بھارت سرکار کی مسلمانوں سے دوستی یا ہمدردی نہیں بلکہ اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مودی سرکار نے‘ جو سب سے بڑی مسلم دشمن حکومت ہے‘‘ پہلے طلاق کے سلسلے پر مسلم خواتین کو اپنی ہمدردی کا یقین دلایا ان کے مذہبی جذبات کو خوب بھڑکایا۔
بیک وقت تین طلاق کا مسئلہ خود مسلمانوں کے درمیان متنازعہ ہے۔ اس پر خوب مسلم عورتوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی اور اس کے بعد مسلم عورتوں کی امامت کے سلسلے کو بھی اچھالا بلکہ اجاگر کرنے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔ اب دارالعلوم نسواں کولکتہ میں 23 عورتوں کو نکاح خواں کی تربیت دی جا رہی ہے۔ ان میں سے 15 نکاح خواں خواتین سند بھی لے چکی ہیں۔
خدا جانے مودی سرکار کو مسلمانوںمیں روشن خیالی کے فروغ کی فکر کیوں لگ گئی ہے۔ اب ان نکاح خواں عورتوں میں سے ایک خاتون حکیمہ بی بی نے ممبئی میں مایا اور شمعون نامی جوڑے کا نکاح بھی پڑھا دیا ہے۔ خدا جانے یہ نکاح ہوا بھی یا نہیں ۔ جوڑے کا نام جو بتایا گیا ہے مسلمانوں میں ایسے نام شاید ہی ہوں۔بالخصوص مایا تو ہندو عورتوں کے نام ہوتے ہیں۔ مودی حکومت کو اگر عورتوں کی ترقی کی اتنی ہی فکر ہے تو وہ اسلام کو چھوڑیں پہلے ہندومت میں صدیوں سے ظلم و جبر کا شکار عورتوں کو تو کچھ ریلیف دینے کی کوشش کریں۔ انہیں بھی مسلمان عورتوں کی طرح وراثت میں حصہ خلع اور دوسری شادی کی اجازت دلوا دیں ان کی مہربانی ہوگی۔ سارا زور مسلمانوں کی اصلاح پرنہ لگائیں۔ ذرا دھیان سے‘ اس شوق میں امیت شاہ اور تیاناتھ جوگی کو ناراض نہ کر لینا کہ یہ دونوں مہاشے‘ بی جے پی کے دو بنیادی ستون ہیں۔
=…=…=
سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں شاہی خاندان کے چوری شدہ جواہرات کوڑے سے برآمد۔
جواہرات چوری کرنے والے ان دو ملزمان کی پولیس سے کوئی سازباز لگتی ہے ورنہ مغرب کی پولیس کے بارے میں تو یہی سنا ہے کہ ان سے کوئی جرم چھپا نہیں رہتا اور کوئی چور بچ کر نہیں نکل سکتا۔ لگتا ہے ہمارے ہاں کی پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی طرح گوری پولیس میںبھی ایسی بھیڑیں موجود ہیں ورنہ وہاں کی پولیس کے ہاتھوں چوروں کا بچ نکلنا حیرت کی بات ہے کیونکہ انکے پاس تو جدید ٹیکنالوجی سے مزین اسلحہ موجود ہے ۔ یہ اچھی خبر ہے کہ کوڑے سے ملنے والے جواہرات حکومت کے حوالے کر دیئے گئے۔ یہ بات نہیں کہ ہمارے ہاں کی پولیس نااہل ہے‘ اس میں بھی ایسے ایسے سپوت موجود ہیں جن کی فرض شناسی کی مثال نہیں ملتی۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے ہاں کی ایک لیڈی کانسٹیبل کو نوٹوں سے بھرا ایک بیگ ملا جسے اس نے مالک کے حوالے کر کے محکمہ پولیس کی نیک نامی میں اضافہ کیا۔ ہماری پولیس بھی انتہائی مستعد اور چاک و چوبند ہے۔اڑتی چڑیا کے پر بھی آسانی سے گن لیتی ہے‘ مُردوں سے جرم قبول کرالیتی ہے اور کرنی پر آئے تو اندھیرے میں گری سوئی بھی تلاش کرلی جاتی ہے۔ اور کبھی اس قدر حال مست کہ اسلحہ سے بھرا ٹینک لے کر ناکے سے گزر جائیںتو یہ معصوم آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی۔
=…=…=
مرغی چوری کے الزام میں ایک سال سے اڈیالہ جیل میں قید شخص کی رہائی کیلئے درخواست۔
کچھ عرصہ قبل اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں ایک بھوکے نے تنور سے ایک روٹی چرائی جسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا‘ تھانے لے جا کر پولیس نے اسکی خاصی چھترول کرڈالی۔ جس ملک میں مرغی چوری کے الزام اور بھوکے کو روٹی چوری پر جیلوں میں قید کردیا جائے وہاں قوم کے اربوں کھربوں لوٹنے والوں کو وزارتوں کے مناصب پر بٹھا دیا جاتا ہے۔آج کل انکے خلاف نیب متحرک ہے جس نے انہیں ’’نّپ کے‘‘ پکڑا ہوا ہے۔ ڈیل اور ڈھیل کا شور بھی عروج پر ہے۔ اگر معاملہ ڈیل اور ڈھیل کی نذر ہوگیا تو بے چارے مرغی چور اور روٹی چور کے دلوں پر کیا گزرے گی ؟ ہم ان دو حضرات سے ہمدردی ہرگز نہیں کر رہے کیونکہ ’’لکھ دی وی چوری تے ککھ دی وی چوری‘‘ ۔ چوری چوری ہوتی ہے‘ بس انصاف ایک جیسا ہونا چاہیے۔ یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ معمولی چوری کرنیوالے کو اندھیرے کنویں میں پھینک دیا جائے یا عقوبت خانے کی نذر کر دیا جائے اور کھربوں لوٹنے والے قید خانوں میں بھی فائیو سٹار ہوٹلوں والی سہولتوں کے مزے لوٹ رہے ہوں۔