پاک فوج کے میجر ہرچرن سنگھ رشتہ ازواج میں بندھ گئے
ارشاداحمدارشد
سکھ قوم بہت بہادر،جفاکش ،نڈراورجذباتی قوم ہے۔ مسلمانوں اور سکھوں میں بہت سی مشترک اقدا رہیں۔ سب سے بڑی قدر توحید، رب سے پیار اور بتوں کی عبادت سے انکار ہے۔ سکھ مذہب کے بانی باباگرو نانک فطرتاً موحد انسان تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیمات میں سب سے پہلے جھوٹ ترک کرنے، مذہب کی غیر ضروری رسومات سے پرہیز، مذہبی کتب کے عین مطابق زندگی گزارنے اور بغیر کسی وسیلے کے اللہ تک رسائی کی تعلیمات سے روشناس کروایا۔ باباگرو نانک سکھ مذہب کے صرف بانی ہی نہیں بلکہ واحدانیت، تصوف اور روحانیت کے پرچارک بھی ہیں۔ آپ مسلمانوں کے عظیم روحانی پیشوا حضرت بابا فرید گنج شکر کے ہمعصر تھے۔ اپنے طویل تبلیغی سفروں میں بابا گرونانک کو کئی جید مسلمان علما اور مبلغین کے ساتھ ملاقاتوں اور مکالمے کے مواقع ملے جنہوں نے ان کی سوچ اور فکرپرگہرے اثرات مرتب کئے۔ اس سوچ اور فکر کا نتیجہ تھاکہ انہوں نے ایک ایسے مذہب کی بنیادرکھی جواسلام کی تعلیمات سے قریب ترہے جس میں سچائی، ایمانداری، بہادری اورجھوٹ سے نفرت کواولین ترجیح حاصل ہے۔اسی چیزکانتیجہ ہے کہ مسلم سکھ تعلقات تاریخ کے ہردورمیں مثالی رہے ہیں۔ ۔
حکومت پاکستان نے سکھوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کے ایک سو تیسویں یومِ پیدایش پر کاکول کیڈمی کے جن کیڈٹس نے مزار کے گارڈز کے فرائض سنبھالے ان میں چھ خواتین کے ساتھ ایک سکھ کیڈٹ بھی شامل تھا۔
اس وقت سکھ پاک آرمی سمیت ہرشعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارنامے انجام دے رہے اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں۔ پاک آرمی میں خدمات انجام دینے والوں میں ایک میجرہرچرن سنگھ ہیں۔ میجرہرچرن سنگھ کاتعلق باباگرونانک کی دھرتی ننکانہ صاحب سے ہے۔ میجرہرچرن سنگھ کے والد ’’آیاسنگھ‘‘ 1970ء کے بعد وادی تیرا (صوبہ سرحد)سے نقل مکانی کرکے ننکانہ صاحب میں آباد ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ1947ء کے موقع پر انگریز اور ہندو بنیا نے جس بہیمانہ اور سفاکانہ طریقے سے سکھوں اور مسلمانوں کوایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا اور ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام کروایا اس کانتیجہ تھاکہ ننکانہ صاحب سمیت پاکستانی پنجاب کی سرزمین سکھوں سے تقریباً خالی ہوگئی تھی حالانکہ یہ وہی پنجاب تھا جہاں سکھ اورمسلمان صدیوں سے ہنسی خوشی رہتے چلے آرہے تھے۔ میجرہرچرن سنگھ کے والد ’’آیاسنگھ‘‘ پہلے سکھ ہیں جو1947ء کے فسادات کے بعد ننکانہ صاحب میں آکر آباد ہوئے۔ جب آیاسنگھ ننکانہ صاحب پہنچے تویہاں کے مسلمانوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، ان کی خوب آئوبھگت کی، مہمان نوازی کی، انہیں اپنائیت کا احساس دلایا اور ہر طرح ان کے ساتھ تعاون کیا۔ آیا سنگھ کوننکانہ صاحب آکر یوں لگا جیسے صدیوں سے بچھڑے اپنوں میں واپس آگیا ہو۔ وہ دن اورآج کادن آیاسنگھ کا ننکانہ صاحب میں ایسا دل لگاکہ وہ مستقل یہاں آباد ہو گیا۔ اب یہاں اس کے بہت سے مسلمان دوست بن چکے تھے، جن کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھتا اور زندگی کوخوبصورت سے خوبصورت بنانے کے منصوبے بناتا۔ آیاسنگھ نے دو شادیاں کیں۔ اسے اور اس کی اولاد کو یہاں آگے بڑھنے، تعلیم حاصل کرنے کے خوب مواقع ملے۔ کوئی رکاوٹ تھی اورنہ کسی قسم کاکوئی مذہبی تعصب تھا۔ یہی حال ننکانہ صاحب کے سکول میں بھی تھا جہاں سے میجر ہرچرن سنگھ نے پرائمری اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آیاسنگھ کے ساتھ مسلمانوں کے دوستانہ رویہ کودیکھتے ہوئے دیگرسکھ بھی ننکانہ میں آباد ہونا شروع ہو گئے۔ اب ننکانہ صاحب میں سکھ برادری کی تعداد دوہزارکے لگ بھگ ہے، ان کو ہر طرح کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی حقوق حاصل ہیں۔ کونسلرسے لے کربالائی سطح تک ان کی نمائندگی ہے۔
آیاسنگھ اگرچہ بوجوہ خودتعلیم حاصل نہ کرسکا تھا لیکن اس نے اپنی اولادکواعلیٰ تعلیم دلانے کا پروگرام بنایا چنانچہ اس نے ہرچرن سنگھ سمیت اپنے بچوں کو تعلیم دلائی۔ ہرچرن نے پرائمری اورمیٹرک کاامتحان ننکانہ صاحب سے پاس کیا۔ ایف ایس سی کاامتحان ایف سی کالج لاہورسے دیا تعلیم کے بعدہرچرن سنگھ کے بارے میں پروگرام بناکہ اسے پاک فوج میں بھرتی کروایا جائے۔ گوپال سنگھ چاولہ جو میجرہرچرن سنگھ کے قریبی عزیزہیں اور پاکستان میں گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے چئیرمین ہیں کہتے ہیں کہ ننکانہ صاحب کے تین سکھ نوجوان تھے جن کے بارے میں ہمارا ارادہ تھاکہ انہیں فوج میں بھرتی کروایا جائے جن میں سے ایک ہرچرن سنگھ بھی تھے۔
دوسکھ نوجوان جسمانی وجہ سے بھرتی نہ ہو سکے جبکہ ہرچرن سنگھ جسمانی اعتبارسے بالکل فٹ تھا اسے بھرتی کر لیا گیا۔گوپال سنگھ چاولہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہماری قوم کاایک نوجوان پاک وطن کے دفاع کے لئے فوج میں بھرتی ہوا اور اب ترقی کرکے میجرکے رینک تک جا پہنچا ہے۔ جب بچہ برسرروزگار ہو جائے تووالدین کی پہلی خواہش اس کے سرپر سہراسجے دیکھنے کی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہرچرن سنگھ کارشتہ سوات میں اپنے ہی رشتے داروں میں طے پایا۔ میجر ہرچرن سنگھ کی بیوی بھی اعلی تعلیم یافتہ لیڈی ڈاکٹر ہے۔ ان کی شادی کی تقریب حسن ابدال گردوارہ پنجہ صاحب میں ہوئی جس میں پاک فوج کے حاضراور ریٹائرڈ سروس افسروں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نئے شادی شدہ جوڑے کے لئے نیک تمنائوں کا پیغام بھجوایا ہے۔ اس تقریب کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی، جنرل ریٹائرڈ علی قلی خان، جنرل ریٹائرڈ مزمل اورجنرل ریٹائرڈ اظہرعباس سمیت دیگر حاضر سروس اور سابق فوجی افسرا ن نے بڑی تعداد میں خصوصی طورپر شرکت کی جبکہ چیئرمین متروکہ وقف املاک صدیق الفاروق بھی اس موقع پر موجود تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق میجر ہرچرن سنگھ نے 2007ء میں پاک آرمی میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ شادی کی تقریبات کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا گیا تھا۔ بیرون ملک سے بھی سکھوں کے کئی وفود نے شادی میں شرکت کی جبکہ رسم نکاح کی ادائیگی کے لئے دربار صاحب امرتسر سے گرنتھی بلوائے گئے تھے۔ جنہوں نے ’’لاواں‘‘ نکاح کی رسم ادا کی۔اس طرح سے میجر ہرچرن سنگھ اپنی نئی زندگی کاآغازکرچکے ہیں۔ جس طرح پاک فوج کے سپہ سالارجنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی فوج کے بہادر جوان کے لئے خوشی کے موقع پر نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے ایسے ہی پاکستانی پاکستانی قوم کی دعائیں اورنیک تمنائیں بھی میجرہرچرن سنگھ کے ساتھ ہیں کہ ان کی زندگی کاباغ خوشیوں، کامیابیوں، کامرانیوں سے صدا پھلتا پھولتا اور مہکتا رہے۔۔۔