پنجاب اسمبلی: گنے کے کاشتکاروں کو سرکاری ریٹ پر ادائیگی نہ ہونے کیخلاف ارکان پھٹ پڑے
لاہور (خصوصی نامہ نگار/ کامرس رپورٹر)پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ارکان شوگر ملز کی جانب سے گنے کے کاشتکاروں کو سرکاری ریٹ کے مطابق ادائیگیاں نہ ہونے کے خلاف پھٹ پڑے، حکومتی رکن اسلام اسلم نے کہا کہ ہنزہ شوگر مل 150کا سی پی آر دے رہی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سی پی آر کے تحت کاشتکاروں کو 180روپے فی من قیمت ادا کی جارہی ہے ،محکمہ تعلیم نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کے تعلیمی اداروں میں بچوں کی انرولمنٹ اور حاضری سو فیصد ہے اور حکومتی اقدامات سے سکولوں کے تنائج میں بہتری آئی ہے ،تعلیمی اداروں میں کمروں کی کمی بچوں کی انرولمنٹ بڑھنے کی وجہ سے ہی ہوئی ہے ،محکمے کے پاس فنڈز کی کمی نہیں 30جون تک مسنگ سہولیات اور کمروں کی کمی بھی دور کردی جائے گی۔ اجلاس گزشتہ روز بھی ایک گھنٹہ چالیس منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ پارلیمانی سیکرٹری جوئس روفن جولیس نے محکمہ سکولز ایجوکیشن سے متعلق سوالوں کے جوابات دئیے۔ قائد حزب اختلاف محمو دالرشید نے کہا کہ ٹریفک جام کی وجہ سے ڈیڑھ گھنٹے ذلیل ہو کر اسمبلی پہنچا ہوں ۔ احتجاج کے دنوں میں ارکان کے لئے ایک راستہ متعین کیا جائے۔عارف عباسی نے سپیکر کی توجہ چیئرنگ کراس چوک میں احتجاجی دھرنے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس احتجاج کی وجہ سے ٹریفک کا بہت برا حال ہے،مظاہرین کا تعلق محکمہ غیر رسمی تعلیم سے ہے ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں15سال سے حکومت5ہزار روپے دے رہی ،ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ ہوا ہے اورنہ ہی کوئی محکمانہ ترقی دی گئی ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا تعلیم کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا وژن واضح ہے ،حکومت کے پاس فنڈز کی کوئی کمی نہیں ،ممبران اسمبلی نشاندہی کریں حکومت وہاں نہ صرف کمرے تعمیر کرائے گی بلکہ دیگرسہولتوں کے فقدان کو بھی دور کیا جائے گا ۔ پی ٹی آئی کی رکن ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کیلئے 4225سکول نجی شعبے کے حوالے کر دئیے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال پر ترس ہی کھایا جا سکتا ہے۔ حکومتی رکن میاں طارق محمود نے کہا حکومت نے گجرات کی سکول کی بنیادی سہولیات کیلئے 20ملین کی رقم مختص کی تھی لیکن ابھی تک بنیادی سہولیات ہی پوری نہیں ہو سکی۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شوگر ملز کی جانب سے گنے کے کاشتکاروں کو سرکاری ریٹ کے مطابق ادائیگیاں نہ ہونے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ۔پیپلزپارٹی کے رکن سردار شہاب الدین نے کہا حکومت نے ہر مرتبہ اچھا کی آواز دی ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہو تے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رکن وسیم اختر نے کہا میں دس روز سے شور کررہا ہوں کہ گنے کے کاشتکاروں کی ادائیگیوں کا مسئلہ حل کیا جائے حکومتی رکن میاں اسلام اسلم نے کہا ہنزہ شوگر مل گنے کے کاشتکاروں کو 150روپے کے سی پی آر دے رہی ہے لیکن اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کو چند شر پسند سیاستدانوں نے استعمال کیا اور ان کو گنے کی فصلوں کو آگ لگانے کے پیسے تک دئیے اس کے ہمارے پاس ثبوت بھی موجود ہیں۔ گنے کے کاشتکاروں کی ادائیگیوں اور دیگر مسائل کے حل کیلئے وزیر اعلیٰ نے میری سربراہی میںایک کمیٹی بنائی ہے جس میں کاشتکاروں، کسانوں اور ملز مالکان کے نمائندوں موجود ہیں۔کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ کاشتکاروں کو 180روپے کے حساب سے فی من ادائیگی کی جائے گی۔بعد ازاں ملز مالکان نے کاشتکاروں کو180 سی پی آر دینے شروع کردئیے جو پندرہ دن بعد کیش ہوتے ہیں ۔کسانوں کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پھر نقد ریٹ 162روپے سے 165روپے کر دئیے۔جن ملز مالکان نے اس کے مطابق ادائیگی نہیں کی ان کے جنرل منیجر اور مالکان تک کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہوئی ہے۔کاشتکاروں کو ہر ممکنہ طور پر ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وزیر قانون نے وسیم اختر کو بھی گنے کی ادائیگیوں کے حوالے سے ہونے والی میٹنگ میں شامل ہونے کی دعوت دے دی۔وقفہ سوالات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے رکن شہزاد منشی نے سیکرٹری ہیومن رائٹس کیخلاف اپنی تحریک استحقاق پڑھی جس کا سپیکر نے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔سرکاری کاروائی سے قبل ہی پی ٹی آئی کی رکن نبیلہ حاکم علی کی جانب سے کورم کی نشاندہی کر دی گئی اورتعداد پوری نہ ہونے پر سپیکر نے پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجانے کا کہا لیکن حکومت کورم پورا نہ کر سکی جس کے بعد سپیکر نے اجلاس آج جمعہ صبح نو بجے تک کے لئے ملتوی کردیا۔