دو تین دن قبل وفاقی دارالحکومت میں ایسی فضا تھی کہ لوگ چہ مگوئیاں بھی کر رہے تھے اور کسی انجانے خطرے کی بو کو بھی محسوس کر رہے تھے۔ لوگوں کا گمان تھا کہ پشت پر اب کئی دوسرے ہاتھ آ چکے ہیں۔ میں نے بھی نوائے وقت سے نکل کر پریس کلب کا رخ کر لیا تاکہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے اور لوگوں کے درمیان جو احساسات پیدا ہو رہے ہیں ان کو سونگھا جائے کہ کس حد تک صورتحال درست یا غلط ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد پریس کلب کے باہر نقیب اللہ محسود کے بے گناہ قتل کئے جانے کے بعد بھرپور دھرنا موجود تھا۔ جب میں پریس کلب کی طرف جا رہی تھی تو راستے میں بھی نقیب اللہ کی ہی عمر کے خوبصورت نوجوان دکھائی دیئے جو آگے پیچھے چلتی ہوئی گاڑیوں سے ویڈیوز بنا رہے تھے۔ میں دھرنے کی جگہ پر پہنچی تو میڈیا کا ہجوم بھی تھا اور سٹیج پر پرزور تقریروں کا سلسلہ بھی جاری تھا اور پھر جو گھر میں بیٹھے پٹھان ہیں ان کو گھروں سے نکلنے کا کہا جا رہا تھا اس موقع ہر ایک معروف چینل کے معروف اینکر نے جذبات کو بھڑکا دینے والی تقریر بھی کی اور ان مناظر میں پٹرول بھی اسی حصار میں آ گیا جس میں وفاق کے لوگ کسی خطرے کو بھی محسوس کر رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ قبائیلیوں کا یہ دھرنا اُچک لیا جائے گا اور اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال ہو جائے گا مگر مجھے سادہ لوح قبائیلیوں کو اکسانے والوں کی گندی ذہنیت پر افسوس تھا اور یہ یقین تھا کہ اب کچھ نہیں ہو گا کیونکہ میں محسود قبیلہ کی تاریخ سے واقف تھی۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں جواہر لال نہرو نے وزیرستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے خلاف بات کی تو میجر میر بادشاہ نے اس کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا تھا۔ وزیرستان کے یہ قبائل ہندوستان والوں کی ذہنیت کو بھی خوب سمجھتے تھے اس ملک کے خلاف ہونے والی کسی سازش کا حصہ نہیں بن سکتے تھے اور وزیرستان کے آفریدی یا محسود ایسے قبائل ہیں جن کا پاکستان کے ساتھ وفاداری اور محبت کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے ملک میں دھرنوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پچھلے دنوں فیض آباد میں ایک طویل دھرنا ہوا تھا وزیرستان سے آئے ہوئے محسود قبیلہ کے لوگ قابل ستائش ہیں کہ رائو انوار کے نقیب کو قتل کر دینے کے خلاف احتجاج کے لئے جمع ہوئے انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ نقیب اللہ کے لئے انصاف مانگا۔ رائو انوار کی گرفتاری پر زور دیا اور بارودی سرنگوں میں زخمی ہونے والوں کے لئے معاوضہ کی بات کی۔ وزیرستان میں تعلیم کے معاملات پر بات کی اور مطالبات منظور ہونے پر واپس چلے گئے۔ وفاق میں ہونے والے احتجاج میں نقیب اللہ جیسے خوبصورت نوجوان کو قتل کر دیئے جانے کے بعد اور وزیرستان سے آئے ہوئے بہت سارے لوگوں کے اجتماع میں کئی طرح کی ناخوشگوار آب و ہوا کو محسوس کرنے والے اطمینان میں اب آ گئے ہیں کیونکہ یہ وزیرستان سے آئے ہوئے محب وطن پاکستانی تھے جنہوں نے کسی قسم کا ناجائز سلسلہ دراز نہیں کیا اور دھرنا کو دیگر مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا جا سکا۔
کشمیر کی آزادی کے وقت بھی محسود قبائل اور وزیرستان کے دیگر قبائل کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے اور جس کی وجہ سے کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے بارے میں بھی منفی آراء کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے آپس میں نفاق پیدا کیا جاتا ہے کشمیر میں تحریک آزادی پاکستان کے وقت جو قبائل گئے تھے وہ بھی مسلمانوں کو آزادی دلانے کا مقصد ساتھ لے کر گئے تھے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ غیر منظم تھے اور ان کی قیادت کرنے والا کوئی ایسا جرنیل یا اعلیٰ افسر نہیں تھا جو انہیں درست سمت لے کر چلتا لیکن ان کی روانگی اور کشمیر میں آمد کو کسی طرح کی بھی بدنیتی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا تھا۔ آج نقیب اللہ محسود کے قتل کے واقعہ کو دیکھیں تو یہ پورے ملک کے ہر پاکستان کا دکھ بن چکا ہے۔ نقیب اللہ ایک پیدائشی آرٹسٹ تھا۔ وزیرستان کے قبائل اس دکھ کو سمیٹ کر اپنے مطالبات منوا کر پرامن طور پر واپس چلے گئے ہیں اور ایسا نہیں ہوا ہو گا کہ ان جیسے بہادر لوگوں کی اسلام آباد میں موجودگی اور انسانی سادہ لوحی اور پھر اتنے بڑے دکھ کے زخم کو کرید کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے آس پاس موجود نہیں تھے۔ مگر ایسے عناصر سے زیادہ مضبوط رشتہ ان کا اس ملک کی سلامتی اور استحکام کے ساتھ ہے ورنہ ہندوستان میں ایک مرتبہ جب تحریک خلافت چلائی گئی تھی اور اس تحریک کا مقصد خلافت کا تحفظ اور بقا کی جدوجہد تھی لیکن اس تحریک میں اچانک گاندھی نے شرکت کا اعلان کر دیا تھا اور دراصل یہ مسلم لیگ کے خلاف ایکشن تھا اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی تھی۔ ان وقتوں میں قائداعظم محمد علی جناح کو گاندھی نے سخت آزمائش میں ڈال دیا تھا کیونکہ علی برادران اور مسلمانوں کی کئی اہم مذہبی شخصیات گاندھی کے زیراثر آ گئے تھے خصوصاً گاندھی کی چالاکی کا مولانا محمد علی جوہر شکار ہوئے۔ گاندھی نے تحریک خلافت کی آڑ میں ’’تحریک ہجرت‘‘ شروع کروا دی تھی اور مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرنے لگ گئے تھے۔ یہ داستان ذرا طویل ہے مگر صد شکر کہ قائداعظم جیسی عظمت والا لیڈر موجود تھا جنہوں نے مسلمانوں کا ہاتھ تھاما اور درست سمت کی طرف قافلے کو لے کر چلے۔ پاکستان میں ’’دھرنوں‘‘ کا سلسلہ تو ہے مگر یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ جس مقصد کے لئے احتجاج کیا جائے اسی مقصد تک محدود رہا جائے اور کسی طور پر اپنے ملکی اثاثوں‘ تعمیرات‘ عمارات اور ملک کی سالمیت کے معاملات کو خطرات میں ڈالنے والے راستوں اور لوگوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان ساری باتوں کا کہنا اس لئے ضروری ہے کہ وفاق میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے واقعہ کے بعد آنے والے قبائل کی موجودگی میں عجیب و غریب باتوں اور افواہوں کا سلسلہ جاری رہا تھا جس نے ہلکی سی خوف کی فضا پیدا کر دی تھی۔ مگر وزیرستان سے آنے والے یہ لوگ قابل ستائش ہیں کہ پریس کلب کے ایک طرف ہی محدود رہے اور وفاق کا نظام زندگی معطل نہ ہوا۔ پرامن فضا میں اپنے مطالبات تسلیم کر کے یہ لوگ واپس چلے گئے۔ ورنہ ان کو چند لوگ اکسانے‘ بہلانے اور پھسلانے میں آگے آ رہے تھے اور جس کے بعد ملک دشمن عناصر کا فائدہ اٹھانا بعید از قیاس نہیں ہوا کرتا ہے۔ مجھے بھی دھرنے میں جا کر انقلاب‘ انقلاب کے نعروں پر حیرت ہوئی تھی۔ جبکہ طالبان کا ذکر بھی چھیڑ دیا جا چکا تھا۔ اب ان سارے معاملات کو غور و فکر کر کے سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی بھیانک صورت حال سامنے آ جائے تو سوچا جائے۔برے وقت سے پہلے اور برے وقت کے احسن طریقے سے ٹل جانے کے بعد بھی سوچنا ضروری ہوتا ہے کہ معاملات کیا تھے۔ دراصل اس قوم کو مکمل فکری احیاء کی ضرورت ہے تاکہ واضح موقف کے ساتھ کسی ایک سمت پورے اخلاص کے ساتھ بڑھا جائے۔ صد شکر کہ محسود قبیلہ کے سردار ایسے تھے کہ جنہوں نے نہرو کو سبق سکھایا ہوا تھا۔ اپنا خیال رکھئے گا!