نااہل شخص کی پارٹی صدارت کس طرح آئین سے متصادم ہے ، عدالتی آبزویشن پر قانون کیسے کالعدم قراردیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (صباح نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی جبکہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ قانون میں گنجائش ہے کہ نااہل شخص پارٹی صدر بن سکتا ہے اور پارٹی سربراہ کا اثرورسوخ ہوتا ہے لیکن ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کو مدنظر رکھ کر کس حد تک جاسکتے ہیں، پارلیمنٹ قانون سازی کا سپریم ادارہ ہے مسلم لیگ ن کے آئین کے تحت پارٹی صدر کو وسیع اختیارات ہیں۔ یہاں میاں نواز شریف کی نہیں بلکہ پارٹی سربراہ کی بات ہورہی ہے، کیا فوجداری الزام میں سزا یافتہ جیل سے پارٹی چلا سکتا ہے، جیل سے قیدی کا باہر رابطہ بھی نہیں ہوتا، صرف نااہلی نہیں دیگر معاملات کو بھی فیصلے کے وقت مدنظر رکھیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کا عمل کاغذات نامزدگی سے شروع ہوتا ہے اگر کوئی شخص نااہل ہوگا تو کاغذات نامزدگی مسترد ہوجائیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ضروری نہیں پارٹی سربراہ الیکشن میں امیدوار ہو لیکن یہ بتائیں قانون کا سیکشن 203 آئین سے متصادم کیسے ہے کیا ایسی کوئی مثال موجود ہے کہ منسوخ قانون کے سیکشنز نئے قانون میں شامل کیے گئے ہوں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ الیکشن ایکٹ 2017 بہت سے قوانین کا مجموعہ ہے، جس میں دیگر قوانین کو بھی شامل کر دیا گیا۔ بابر اعوان نے کہاکہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی سربراہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس دوران چیف جسٹس نے کہاکہ اس حوالے سے فروغ نسیم واضح دلائل دے چکے ہیں۔ بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ بھی الیکشن کمیشن کو پارٹی سربراہ جمع کروائے گا اور پاناما کیس میں عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرنے کے لئے سیکشن 203 شامل کیا گیا۔ پانامہ فیصلہ کے بعد نا اہلی ختم کرنے کی بات شامل کی گئی۔ مسلمان کی تعریف سے متعلق قانون میں تبدیلی کر دی گئی۔ جب تعریف تبدیلکرنے پر شور و غل ہوا تو ترمیم لائی گئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی میں مجوزہ قانون میں سیکشن 203 شامل تھا۔ کمیٹی کے بل پر تمام سیاسی جماعتوں نے رضا مندی کا اظہار کیا۔ اس دوران دستاویزات بھیجے جانے کے معاملہ پر چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل آفس براہ راست ہمیں کیسے بھیج سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے رانا وقارکو ہدایت کی کہ الیکشن ایکٹ قانون سے متعلق دستاویزات طریقہ کار کے مطابق جمع کروائیں،چیف جسٹس نے بابر اعوان سے کہاکہ عدالتی فیصلے کی مثال دیں کہ کسی شخص کے لیے قانون بنایا گیا اور پھر عدالت نے شخصیت کے فائدے کے لیے بنائے قانون کوکالعدم قرار دیا ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے طریقہ کار کے تحت ہی کسی قانون کو کالعدم کیا جاسکتا ہے جس پر بابراعوان نے کہاکہ ملک میں اس وقت منفرد صورتحال ہے پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر شخصیت کے لیے قانون بنایا گیا، عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔
الیکشن ایکٹ