ڈرون حملے اور ہماری خود مختاری
امریکہ نے کافی وقت گزار کر پاکستان کے افغان مہاجر کیمپ پر ڈرون حملہ کیا ہے۔ جس پر فوج کی طرف سے یہ مؤقف آیاکہ جہاں کہیں بھی امریکہ سمجھے کہ یہاں دہشت گرد ہیں ہمیں آگاہ کرے۔ ہم خود کارروائی کریں گے جبکہ وزیر دفاع کی طرف سے سخت بیان آیا اور ڈرون کو گرانے کی بات کی ہے۔ میں آج ایک اور ڈرون کی طرف جا رہا ہوں وہ ہے متحدہ مجلس عمل کی بحالی جس کا وجود 2002 ء کے الیکشن میں حیران کن کامیابی کی شکل میں نمودار ہوا۔ مجلس عمل کا وجود میں آنا ایک بابرکت عمل تھا جبکہ اس کے نتائج بھی حیرت انگیز رہے۔ عوام نے مذہبی جماعتوں کا پورا پورا ساتھ دیا۔ صوبائی ‘قومی سیٹیں لیں۔ خیبر پی کے میں مجلس عمل کی حکومت بنی مگر چونکہ مجلس عمل میں زیادہ تر مولانا فضل الرحمٰن کا عمل دخل تھا اور اکرم خان درانی ان کے وزیراعلیٰ تھے۔ مولانا نے اپنی من مانیاں شروع کر دیں۔قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے جو قاضی کی طرف سے اصولی اختلافات تھے۔ بالآخر مجلس عمل ٹوٹ گئی۔ مولانا فضل الرحمٰن کا گزارہ حکومت میں ر ہے بغیر ممکن نہ ہے۔ وہ ہمیشہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ وہ کافی عرصہ سے حکومت میں موجود ہیں اور مزے لوٹ رہے ہیں۔ دنیاوی نقطہ نظر سے انہیں کامیاب سیاستدان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ وقت کے ساتھ ڈھلتے اور چلتے ہیں۔ اپنے بادبانوں کا رخ ہوا کے رخ پر رکھتے ہیں۔
مولانا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں وہ پی پی پی کے دور اقتدار میں بھی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ آج بھی ہیں لیکن کشمیریوں کیلئے کشمیر کمیٹی کیلئے کچھ نہ ہوا۔ کشمیری گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔ روزانہ جنازے اٹھ رہے ہیں۔ جنازوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفنایا جا رہا ہے۔ جہاں کہیں کوئی کھیل ہوتا ہے تو ان کشمیریوں کی طرف سے پاکستان زندہ بادہ کے نعرے لگتے ہیں بعد ازاں انہیں اسکی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ آج تک کشمیر کمیٹی کو کوئی بیان داغنے کی توفیق تک نہیں ہوئی۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ مراعات ‘ سہولیات اس سے بڑھ کر ہیں لیکن کارکردگی صفر سے بھی نیچے ہے تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عہدہ حکومت کو بلیک میلنگ سے بچنے کیلئے اور تحریک انصاف کی منفی سرگرمیوں سے بچنے کیلئے دیا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کا سہارا بھی بنے رہیں اور مفادات بھی حاصل کرتے رہیں۔اسی طرح فاٹا کے ضم ہونے میں حکومت کو مولانا نے وخت ڈالا ہوا ہے اور واضح طور پر فاٹا کے عوام کی خواہش اور سہولت کو مدنظر رکھے بغیر اسکی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے اقتدار کے وقت جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے ارکان کے درمیان کرپشن پر زیادہ تر اختلافات تھے۔ جماعت اسلامی کا الزام تھا کہ جمعیت کے بعض ارکان کرپشن میں ملوث ہیں۔ مولانا خود بھی اس بیماری کا شکار ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کی بھی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اب بھی وہی شکایت عام ہے کہ ہر ایشو پر حکومت سے نئی وزارت‘ سہولیات‘ مراعات ‘ ڈیمانڈ کی جاتی ہیں۔ بلوچستان گورنمنٹ کے ایشو پر حکومت کو مولانا نے بلیک میل بھی کیا اور عدم تعاون ‘ مراعات نہ ملنے پر کی پالیسی پر کاربند بھی رہے۔ یہ تو مولانا کی کارکردگی ہے کہ مفادات حاصل کرنے میں نہ عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھنا ہے اور نہ ہی کشمیریوں پر ڈھائے جانے والی ظلم و بربریت پر آواز بلند کرنا ہے۔ اگرکشمیریوں سے ذرا برابر بھی پاکستان کو ہمدردی ہے تو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین فوری طور پر ایسے شخص کو بنایا جائے جو کشمیریوں کی مجبوریوں کو سمجھتا ہو۔ مسئلہ کشمیر سے دلچسپی رکھتا ہو اور کشمیریوں کو آزادی دلانے کیلئے اس کے اندر تڑپ موجود ہو۔ بھارت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو استعمال کر کے علیحدہ کر سکتا ہے وہاں پر مشرقی پاکستان کے عوام بھی اس وقت پاکستان کے خلاف ہو گئے تھے تو کیا وہی حالت اب کشمیر میں نہ ہیں۔ وہ بھاگ بھاگ کر پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں مگر ہم ہیں کہ ان کی خاطر خواہ مدد نہیں کر رہے۔ ہمیں دل کھول کر ان کی مدد کرنی چاہئے جبکہ ہم خواب غفلت میں ہیں۔
آغاز میں میں نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کو کچھ جماعتوں کیلئے ڈرون کہا ہے تو یہ غلط نہ ہے۔ عوام نے ہمیشہ مذہبی جماعتوں کا ساتھ دیا ہے۔ اگر مذہبی جماعتیں خود ٹھیک ہوں تو آنے والا دور انہیں پذیرائی بخشے گا۔ تحریک انصاف کے لڑکے اور نسوانی نمائش دیکھنے کو نہ ملے گی اور عوام اس غیر کلچر سیاست کو خیرباد کہہ دیں گے۔ مجلس عمل کے تمام ممبران کو خلوص دل سے آگے بڑھنا چاہئے مگر ایک تحفظ اب بھی موجود ہے کہ خبروں میں آرہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو مجلس عمل کا ہیڈ بنایا جا رہا ہے جسے امیر بھی کہا جا سکتا ہے تو یہاں پر یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ پہلے متحدہ مجلس عمل مولانا کے طرز سیاست‘ ذاتی مفاد‘ انا کی وجہ سے ٹوٹی تھی تو اب وہ کونسی تبدیلی آگئی ہے جو مولانا اس کو چلا پائیں گے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭