حالیہ طالبان حکومت بات چیت کے پس منظر میں پاکستان، تاریخ کے مشکل دوراہے پر ہے ۔ گو کہ پاکستانی طالبان اور حکومت کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت کا عمل ایک خوش آئند اَمر ہے لیکن اِس عمل میں دشواریاں بدستور حائل ہیں جن کا تدارک کئے بغیر ایسی کسی بھی گفتگو کا نتیجہ خیز ہونا فی الحال ممکنات میں دکھائی نہیں دیتا ہے ۔
یہ درست ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ذاتی طور پر بات چیت کے اِس عمل کی نگرانی کریں گے لیکن مولانا سمیع الحق کی جانب سے وزیراعظم کی ٹیم کے بجائے چوہدری نثار علی خان سے رابطے کو فوقیت دئے جانے سے یہی احساس ہوتا ہے کہ طالبان موثر حکومتی شخصیتوں سے بات چیت پر زور دے رہے ہیں جبکہ طالبان مخالف سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے طالبان کیساتھ بات کے اِس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ۔اِن حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیرستان میں طالبان کیخلاف ایک حالیہ منظم سیکیورٹی آپریشن جس میں ایئر فورس کے طیاروں کو طالبان کی خفیہ کمین گاہوں پر حملے کیلئے استعمال کیا گیا تھا کے بعد طالبان کا بات چیت کے عمل میں شامل ہونا معنی خیز بات ہے ۔اِن حلقوں کا کہنا ہے کہ بات چیت کے عمل میں طالبان مخلص نہیں ہیں کیونکہ اُنہوں نے بات چیت کیلئے اپنے نمائندے نامزد کرنے کے بجائے پاکستانی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو ہی رابطے کیلئے نامزد کیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ طالبان حکومتی ٹیم کے نمائندوں پر تحفظات رکھتی ہے اور ہم خیال پاکستانی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذریعے بات چیت کے اِس عمل کو طویل تر کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے مزید وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ طالبان مخالف حلقوں کا نقطہ نظر یہی ہے کہ طالبان موجودہ سرد موسمی شدت کے باعث ڈیورنڈ لائین کے دونوں اطراف اپنی خفیہ کمین گاہوں سے دور ہیں اور ممکنہ سیکیورٹی آپریشن کیخلاف موثر دفاع کرنے سے قاصر ہیںلہذا وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم کرنے کیلئے وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا ایسا ہی ہے اِس کا فیصلہ تو وقت ہی کریگا ۔ البتہ بات چیت کے موجودہ پروسس کے ذریعے معاملہ فہمی میں دوسری بڑی دشواری ملک میں طالبان سے متعلقہ پچاس سے زیادہ تنظیمیں ہیں جو دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہیں جن میں کچھ ایسی تنظیمیں بھی شامل ہیں جن کے ڈانڈے بیرونی ایجنسیوں سے ملے ہوئے ہیں۔ چنانچہ بات چیت کا عمل شروع ہو نے کے باوجود ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں بدستور جاری ہیں جبکہ پشاور میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جند اللہ تنظیم کی دہشت گردی کو طالبان کا حصہ نہ سمجھا جائے ، اِسی طرح بھارتی اور موساد حمایت یافتہ بلوچ لبریشن آرمی نے طالبان کے بات چیت کے عمل میں شامل ہونے کے بعددہشت گردی کی کاروئیوں کو بلوچستان سے نکال کر سندھ تک بڑھا دیا ہے جس کی کڑیاں شالیمار ایکسپریس کے خلاف ہونے والی دہشت گردی میں بھی ملتی ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جند اللہ اور بلوچ لبریشن آرمی یا اِسی نوعیت کی دیگر طالبان تنظیمیں جنہیں بیرونی ذرائع سے حساس اسلحہ اور مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے، امریکی بلیک واٹر آرمی ، موساد اور بھارتی ایجنسی راء کی ہدایت پر متحرک ہے اور طالبان بات چیت کے عمل کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہیں ؟ اِس پر حکومتی فکر و نظر رکھنے والے اداروں کو غور و فکر کرنا چاہئیے۔
اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نائین الیون کے بعدگذشتہ دس بارہ برسوں میں افغانستان میں بیرونی سیکیورٹی ایجنڈے کی تکمیل میںمعاونت کے سبب دہشت گردی کے واقعات میں پاکستانی عوام اور ادارے جس تباہی و بربادی کا شکار ہوئے ہیں اُسے تاریخ میں بھلایا نہیں جا سکے گا ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی اِس لہر کی ناقابل یقین شدت کی ایک وجہ پاکستانی حکمرانوں کی اپنی کوتاہیوں کو بھی قرار دیا جاتا ہے ۔نائین الیون سے قبل سابق سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں بھی بیرونی سیکیورٹی ایجنڈے کو آگے بڑھایا گیا تھا ، وزیرستان کی سرزمین اُس وقت بھی سوویت روس کے خلاف سیکیورٹی آپریشن کیلئے استعمال کی گئی تھی لیکن خطے کی سیکیورٹی پاکستانی ایجنسیوں کے کنٹرول میں اِس لئے بھی رہی کیونکہ افغانستان میں اِس وسیع تر بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان نے اپنے اقتدار اعلیٰ کو بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں نہیں رہنے دیا تھا بلکہ افغان جہادیوں کی تربیت اور بیرونی اقتصادی امداد کے نظام کو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ سے مربوط کیا گیا تھا لیکن نائین الیون کے بعد کی صورتحال قطعی مختلف رہی کیونکہ ابتدائی طور پر جنرل مشرف اور پھر صدر زرداری کے دورِ حکومت میں امریکہ نیٹو اتحاد کی سرگرمیوں کو پاکستانی اقتدار اعلیٰ کے تابع نہیں کیا گیا چنانچہ خطے میں پاکستانی مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کی سرزمین کو امریکہ نیٹو اتحاد کے سیکیورٹی مفادات کیلئے استعمال کیا گیا بلکہ سی آئی اے کی جانب سے وزیرستان کو بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیاچنانچہ اِن حملوں کے خلاف ردعمل کے طور پر وہی افغان جہادی قوتیں جنہوں نے ماضی میں سوویت یونین کے ساحل مکران کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہشوں کو ملیا میٹ کیا تھا، پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہو گئیں۔ جنرل مشرف کے بعد صدر زرداری کی حکومت نے بھی پاکستان کی سیکیورٹی مشکلات میں قدرے اضافہ کیا جب اُنہوں نے امریکہ میں اپنے نامزد کردہ سفیر حسین حقانی کے ذریعے سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر امریکی پرائیویٹ کنڑیکٹ ایجنسیوں بشمول بلیک واٹر آرمی کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جنہوں نے ڈالر کی فراوانی کے باعث اہم پاکستانی حلقوں اور کچھ طالبان گروپوں میں اپنے حلقہء اثر قائم کئے جبکہ اِس کام میں اُن کی معاونت میں امریکہ کے دفاعی اتحادی بھارت کی ایجنسیاں بھی خطے میں اپنے مفادات کے پیش نظر پیش پیش رہیں ۔ یہ درست ہے کہ سی آئی اے نے وزیرستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے القاعدہ اور طالبان کے کچھ بیرونی دہشت گردوں کو بھی نشانہ بنایا لیکن اِن حملوں میں بیشتر بیگناہ پشتون خواتین و بچوں کے مارے جانے کے سبب وزیرستان کے طالبان کی مقامی حمایت میں نہ صرف بے پناہ اضافہ ہوا بلکہ پاکستانی ہم خیال مذہبی گروپوں میں بھی اُنہیں پزیرائی حاصل ہوئی چنانچہ پاکستان کے طول و ارض میں مقامی ہم خیال گروپوں کی خاموش حمایت حاصل ہونے کے سبب عوامی اجتماعات اور سرکاری اداروں پر طالبان کے دہشت پسندانہ حملوں کو مہمیز ملی ۔ اندریں حالات ، درج بالا عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے طالبان ،حکومت بات چیت میں حائل مشکلات کو دور کرنے کیلئے اہم سیاسی ، مذہبی، اور عسکری اداروں کی مشاورت سے فول پروف سیکیورٹی پالیسی کی تشکیل ضروری ہے تاکہ پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل طور پر صفایا کیا جا سکے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38