اسی دوران خودڈاکٹر صاحب سے بھی ہمیں بات کرنے کا موقع ملا‘ وہ جہاں نظر بندی کی تکالیف کا ذکر کرتے‘ بڑے اخباروں کے جانبدار رویے کی شکایت کرتے وہیں جناب مجید نظامی کیلئے ان کے الفاظ اور لب ولہجہ اظہار تشکر سے معمو ر ہوتا‘ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بتایا تھا وہ اپنی یادداشتیں تحریر کررہے ہیں‘ تمام تکالیف کے باوجود ان کے لہجے کا عزم اور امید کم نہیں ہواتھا‘ انہوںنے کہا تھا یہ ڈکٹیٹر ضرور اپنے انجام کو پہنچے گا ‘ میرا ضمیر مطمئن ہے‘ مجھے یقین ہے ’’ میری بے گناہی ثابت ہوگی‘‘ ۔
ڈاکٹر قدیر کی کہی ہوئی یہ باتیں کانوں میں گونجتی ہیں اور ٹی وی پر انہیں ’’ ر ہائی کے بعد‘‘ دیکھتی ہوں تو ان کا سفید سر‘ مضمحل سراپا ا ور چہرے کی مسکراہٹ مل کر دھوپ چھائوں کا سا تاثر پیدا کرتے ہیں‘ وہ شخص جس نے اپنی جوانی‘ بہترین توانائیاں ملک وقوم کی سربلندی کیلئے وقف کردیں‘ جب پاکستان دولخت ہواتو اس غم میں محض کڑھتے رہنے کی بجا ئے انہوںنے اپنے ملک وقوم کے درد میں آنسوئوں کو ’ ’ ایٹم ‘‘ کی شکل میں ڈھال دیا اور قوم کو اس کی سالمیت کے لئے ایسا تحفہ دیا جس کی اہمیت اب بچے بچے کو معلوم ہے جب امریکہ اور بھارت بلاشبہ پاکستان کو آنکھیں د کھاتے‘ ڈراتے ودھمکاتے ہیں مگر اس سے آگے بڑھنے کی انہیں ہمت نہیں ہوتی‘ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دینے کے جرم میں ڈاکٹر قدیر خان کے گرد سازشوں کا جال بنا گیا‘ جو خودسب سے پہلے ایٹم بم استعمال کرکے جیتے جاگتے شہروں کو نیست ونابود کرنے والے ہیں‘ بموں کی خریدوفروخت میں ملوث رہے ہیں انہوںنے ڈاکٹر قدیر خان نیٹ ورک کا ’’ پتہ ‘‘ چلایا اور ان پر ایٹمی رازوں وسامان کی فروخت کا الزام عائد کیا‘ جبکہ امریکہ کے دبائو میں آئی ہوئی مشرف حکومت نے ان الزامات کا تمام تر بار ڈاکٹر قدیر پر تن تنہا ڈالتے ہوئے انہیں نظر بند کردیا‘ وہ پانچ برس تک قید تنہائی میں مبتلا رہے‘ اب جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ’’ بے گناہ‘‘ قراردے دیا اور ڈاکٹر خان نظر بندی سے باہر نکلے ہیں ان کے سراپے پر اس سزا کے اثرات واضح ہیں‘ انہوںنے کہا ہے نواز شریف نے اپنی جلا وطنی ‘ آصف زرداری نے اپنی قید کے لئے کسی پر مقدمہ نہیں کیا وہ بھی نہیں کرینگے۔
وہ د عویٰ کریں بھی تو کس سے ‘یہ سزائیں اور یہ رہائیاں انصاف وقانون کے وجود پر خود ایک سوال ہیں۔
٭٭٭٭٭٭