شادی ہالز پر ودہولڈنگ ٹیکس، میرج ہال والوں نے عوام پر تھوپ دیا
جی ہاں ایف بی آر والوں نے نہایت مہارت سے میرج ہال والوں پر فی تقریب 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لگا یا اور اس کا نتیجہ اب عوام بھگتیں گے۔ شادی ہال والوں نے یہ اضافہ سیدھے سبھاؤ عوام پر ڈال دیا اور ہالز کے کرایوں میں اضافہ کر دیا۔ یوں جن پر ٹیکس لگا وہ تو بچ نکلے اب شادی والوں کو اضافی خرچہ اٹھانا پڑے گا۔ پہلے ہی شادی ہالز والے ہیر پھیر کرکے گھٹیا سروس اور کھانا فراہم کرکے بہت کماتے تھے، اب بھی گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔ ایک عام سا شادی ہال بھی لاکھوں سے کم میں بک نہیں ہوتا۔ چکن آسمان پر اڑے یا زمین پر دوڑے، اس کے ریٹ ون ڈش قانون کے باوجود اوپر ہی جاتے ہیں، کم یعنی نیچے نہیں آتے۔ مٹن کی تو بات ہی چھوڑیں۔ اس سے تو بہتر ہے غریب آدمی شادی ہی نہ کرے۔ یہ علت بھی ہم نے خود اپنائی ہے ورنہ کسی کی کیا مجال کے عوام کو لوٹے۔ پہلے شادی بیاہ کیا نہیں ہوتے تھے، مہندی، بارات، ولیمہ نہیں ہوتا تھا؟ اس وقت تو شادی ہال کا واہیات تصور اور لاکھوں کا خرچہ بھی نہیں ہوتا، اب اس لوٹ مار سے لوگوں کو بچانے کے لیے یا تو حکومت شادی کی فضول رسوم کو جو درحقیقت ایک بوجھ ہیں، اور غیرشرعی بھی، پر سختی سے پابندی لگا کر شادی کی تقریبات کو نکاح اور ولیمہ تک ہی محدود کردے۔ نکاح کے دن رات کو بے شک گھروں میں پہلے کی طرح مہندی کی رسم ادا کی جائے۔ پوری مسلم دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے صرف ولیمہ سنت کے مطابق دیا جاتا ہے۔ مغرب میں بھی دیکھ لیں، شادیاں نہایت سادہ، سچ کہیں تو اسلامی احکام کے مطابق ہوتی نظر آتی ہیں۔ ایجاب و قبول اور انگوٹھی پہنا کر ایک عام دعوت ہوتی ہے بس۔ وہاں یہ مہندی اور بارات کا کھانے کا تصور ہی نہیں۔ ولیمہ بھی کوئی شاہی مرغ قورمہ، پلاؤ، مٹن پالک یا بریانی پر مشتمل نہیں ہوتا جس میں سوپ، بوتلیں اور میٹھا حلوہ یا کھیر بھی نیں ہوتی۔ یہ مصیبتیں ہم نے خود غیراسلامی معاشرت اور ناک اونچی رکھنے کے لیے اختیار کی ہیں۔ لوگ خود بھی اپنی حالت بدلیں، شادی بغیر نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بنائیں، لاکھوں غریب بچیوں کے گھر آباد ہوں گے۔
٭…٭…٭
عدالتوں میں صرف والدین کو ہی نہیں بچوں کو بھی سنا جائے، جسٹس منصور علی شاہ
بچوں کے حقوق کے حوالے سے تقریب میں جسٹس صاحب نے جس دلسوزی سے بچوں کے معاملات میں عدالتی کارروائیوں میں جج صاحبان پر زور دیا ہے کہ صرف والدین کو ہی سن کر فیصلہ تیار نہ کریں کیونکہ یہ بچے ہمارا آج ہی نہیں، ہمارا کل بھی ہیں۔ ان سے ہمارا مستقبل ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ سب سے زیادہ جذباتی مسائل اور دکھ و تکلیف کی حالات و واقعات ہمارے سامنے فیملی کورٹ میں سامنے آتے ہیں۔ والدین کی باہمی چپقلش اور خاندانی جھگڑوں میں سب سے زیادہ نقصان بھی بچے اٹھاتے ہیں۔ اور جب معاملات علیحدگی پر آئے تو ہر ایک ان بچوں پر اپنا حق جتاتا ہے۔ وہ نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے۔ کئی حالات میں تو بچے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک ماں کے پاس ہوتا ہے تو دوسرا باپ کے پاس۔ یوں مکان یا زمین کی طرح ان کا بٹوارا کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ماں باپ دوسری شادی کر لیتے ہیں اور یہ بچے سوتیلے پن کا شکار ہو کر قتل تک ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اچھوتوں سے بھی بدتر بن جاتی ہے۔ وہی دادا دادی، نانا نانی جو لیتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، کچھ ہی دن بات ماں باپ سے کہتے ہیں کہ لو جی، سنبھالو اپنی اولاد۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے بچوں سے کیا پوچھا جا سکتا ہے۔ کم عمر بچے تو حالات سے واقف تک نہیں ہوتے۔ ہاں البتہ بالغ بچے کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہ شاید مافی الضمیر بیان کر سکیں۔ یہ تو معزز جج صاحبان کی عقل و دانش و قانونی گرفت پر منحصر ہے کہ وہ حالات و واقعات کا جائزہ لے کر بچوں کے جذبات و تاثرات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں تاکہ ہمارا آج کل خراب نہ ہو۔ چلڈرن کورٹس کا قیام شاید کچھ بہتر راہ نکال سکے۔ فیملی کورٹس میں تو جو ہوتا ہے اس سے ہر آنکھ اشکبار ہوتی ہے۔
٭…٭…٭
پی ٹی آئی اور جے یو آئی، اسلام آباد والوں کے لیے دسمبر کو ستمگر بنانے کی تیاریوں میں
خدا جانے دسمبر کو ستمگر بنانے کی کوشش کیا رنگ لائے گی مگر 6 دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت اور 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے زخم ابھی تک تازہ ہیں، بنگلہ دیش کا زخم تو مدتوں تک رستا رہے گا۔ یہ تو ابھی وہاں طلبہ کے انقلاب نے اس پر ذرا مرہم رکھ کر راخت کا سامان پیدا کیا ہے۔ اب ایک بار پھر اسلام آباد پر خوف کے سائے لہرا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی والے باربار شب خون مارنے کے بعد آرام سے نہیں بیٹھ رہے۔ اب پھر انھوں نے اپنے قائد کے حکم پر جو انھیں علیمہ خان کی زبانی ملا ہے، اگلے جمعہ کو سول نافرمانی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اگر ان کے مطالبات یعنی احکام پر عمل نہ ہوا تو۔۔۔ اس میں ان کی کوشش ایک بار پھر کسی نہ کسی بہانے اسلام آباد کو ہی نشانہ بنانے کی ہو گی۔ اس کام میں چلیں ایک ہفتہ ہے مگر کیا اس طرح وہ اپنے بانی کو چھڑانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ جو ممکن نظر نہیں آتا۔ اس سے پہلے مگر جے یو آئی (ف) نے مدارس رجسٹریشن کے مسئلہ پر آج جو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا ہے، اس کا مطلب کیا لیا جائے گا۔ پہلے ہی جو کچھ جے یو آئی والوں نے آئینی ترمیم کے حوالے سے پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پی پی پی کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا تھا، اس میں سب سے زیادہ فائدہ بھی مولانا کی جماعت نے ہی اٹھایا۔ حکومتی اتحاد تو بس بدنامی زیادہ مول لے بیٹھا ہے۔ اب اسلام آباد مارچ کے نام پر رجسٹریشن مدارس بل بھی مولانا فضل الرحمن کے لیے گولڈن کارڈ ثابت ہونے لگا ہے۔ ہاں اگر پہلے ہی کوئی معاملہ بالا بالا طے ہو گیا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مولانا آسانی سے اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنا جانتے ہیں۔ ویسے بھی مدارس کے طلبہ کو اپنے مرشد یعنی قائد سے سوال کی اجازت کب ہوتی ہے۔ وہاں تو ذرا ذرا سی بات پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی ہے۔ یہی مؤدب طالب علم سیاسی میدان میں بھی اپنے قائدین کے لیے ہراول دستے کا کام بھی دیتے ہیں۔ خدا کرے یہ معاملہ بھی آرام سے آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے مطابق حل ہو جائے۔
٭…٭…٭
پی ٹی آئی میں یکساں سوچ اور قیادت کا فقدان، سب اپنی اپنی بولی بولنے لگے
اب یہ نیا تنازعہ یا ڈرامہ جو بشریٰ بی بی اور گنڈاپور کے درمیان ڈی چوک میں اکیلا چھوڑنے اور نہیں چھوڑا کے بیانیے کی وجہ سے عوام کی تفریح طبع کا باعث بن رہا ہے، پارٹی کے کارکن اور رہنما سب انگشت بدنداں ہیں کہ کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ بشریٰ بی بی کی پارٹی میں کیا پوزیشن ہے اور انھیں یہ کروڑ روپے کا چیک تقسیم کے لیے کس نے دیا؟ یوں ایک نئے اختلاف کی لہر سامنے آکر سونامی کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ علیمہ خان خود کو بانی کا درجہ ترجمان بتا رہی ہیں، سمجھ نہیں آرہا کسی کی مانیں؟ اوپر سے کپتان کہہ رہے ہیں ابھی آخری پتا ان کے پاس ہے جو وہ غالباً سول نافرمانی کے بعد شو کریں گے۔ یہ سول نافرمانی کا اعلان بھی علیمہ خان نے کیا ہے۔ اکرم شیخ ایڈووکیٹ اس کے گواہ ہیں۔ وہی اصل حقیقت جانتے ہوں گے۔ اس وقت کپتان کی حالت ایک انار سو بیمار والی ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے، ان کے نت نئے احکام جاری کرتا پھرتا ہے۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ انھوں نے سب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دیدی ہے۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی بھان متی کا کنبہ بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک اپنی من مانی کرتا نظر آرہا ہے۔ ’ساس ہماری گھر نہیں، ہم کو کسی کا ڈر نہیں‘ والا محاورہ بھی اسی صورتحال پر کہا جاتا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں ون مین شو بن جاتی ہیں تو پھر یہ فلسفہ آکاس بیل بن کر ہرے بھرے درخت کو ڈھانپ لیتا ہے اور خشک کر دیتا ہے۔ کپتان جیل میں بیٹھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ یا ہو سکتا ہے وہ خود ایسا ہی چاہتے ہیں تاکہ ان کے مقابلے میں کوئی پارٹی دعویدار نہ باقی رہے۔ ان کے بعد پارٹی مختلف دھڑوں میں بٹی رہے جب وہ باہر آئیں گے تو سب پھر سنبھال لیں گے۔