تالے

گائوں کے گھروں کے دروازوں پر مستقل لگے تالے ہجرت کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ دیکھنے والوں کو وہاں کے مکینوں کی ہجرت کی کہانی بیان کرتے ہیں اور ہجرت کی کہانی گھر میں رہنے والے مکینوں کے دْکھ سکھ کی کہانی ہوتی ہے۔ کچھ تالے وقفے وقفے سے کھلتے رہتے ہیں اورمکینوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے کچھ تالوں کے کھلنے کا دورانیہ اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ وقت اْن کو زنگ آلود کرتا چلا جاتا ہے اور یوں کچھ زنگ آلود تالے کچھ گھروں کے مکینوں کی کرب کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ گائوں کے گھروں کو تالوں کے سپرد کرکے ہجرت کرجانے والے لوگ بھی عجیب مخمصے میں ہوتے ہیں۔ کبھی روشن مستقبل کے خواب اْن کو اپنی اور کھینچتے ہیں اور کبھی زندگی بھر تنکا تنکا جوڑ کر تعمیر کیے جانے والے گھر کی محبت اْنہیں اپنی جانب کھینچتی ہیاور وہ زندگی کا بیشتر وقت خوابوں اور محبتوں کے درمیان گذار دیتے ہیں۔
برسوں پہلے میں نے بھی ہجرت کی کیفیت اور مکین کے دْکھ کا مشاہدہ کیا۔ میںاپنی ملازمت کی وجہ سے شہر میں رہائش پذیر تھا اورچاہتا تھا کہ میرے والدین بھی میرے ساتھ شہر میں قیام کریں۔ میں نے بمشکل ابو جی کو شہر ہجرت کے لیے قائل کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ جس محبت اور اپنائیت کے ساتھ وہ گائوں کے گھر کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے اْن کے لیے گائوں کا گھر چھوڑ دینا خاصا مشکل تھا۔ گائوں چھوڑنے کے خیال پر وہ ہمیشہ ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے اور کئی سال تک اْنہوں نے شہر منتقل نہ ہونے کے لیے حیلوں بہانوں سے کام لیا۔ پھر ایک دِن اْنہوں نے میری ضد کی وجہ میرے ساتھ شہر منتقل ہونے کی حامی بھر لی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ گائوں چھوڑتے ہوئے جب ابو جی گھر کے دروازوں کو اپنے ہاتھوں سے تالے لگا رہے تھے تو مجھے اْنکے چہرے پر ایک انجانے کرب کے سائے دکھائی دے رہے تھے۔مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ جانتے ہیں کہ وہ دوبارہ کبھی اِس گھر کے مکین کے طور پر واپس نہیں آپائیں گے اور یہ تالا شہر میں اْن کی شروع ہونے والی قید کی ایک خوبصورت کوٹھڑی کا تالا ہے۔ میں اْن کے خدشات جانتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ گائوں سے شہر کی ہجرت بھلے ہمارے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش کا سفر تھا مگر یہ سفر اْن کے لیے بہت سی انمول یادوں کو کو یکسر چھوڑ دینے کا دْکھ لیے ہوئے تھا۔شہر ہجرت کے بعد گائوں کے کھیت کھلیان درختوں کی گھنی چھائوں ، پرندوں کی بولیاں، مٹی کی بھینی بھینی خوشبو، لہلہاتی فصلوں کی بہار کے مناظر ، سکوت اور بے فکری کے یاد گار لمحے بھی صرف یادوں میں رہ جائیں گے اور یادیں ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔ گائوں کی صبحیں، دوپہریں اور شامیں شہر کی روشنیوں اور شور شرابے میں گم ہو جائیں گی۔
شہر میں قدم رکھتے ہی زندگی کی تیز رفتاری حیران کن ہوجاتی ہے اور ہر شخص ایک انجانی منزل کی طرف دوڑ رہا ہے۔ وقت کا پہیہ ہے کہ کبھی رْکنے کا نام نہیں لیتا۔ گائوں کے سکون اور اپنائیت کی جگہ شہر کی افراتفری اور اجنبیت لے لیتی ہے۔ وہ رشتے جو گائوں میں مضبوط ہوا کرتے تھے شہر کی بے پناہ مصروفیت میں کمزور پڑنے لگ جاتیہیں۔ پھرکبھی کبھی جب گائوں میں گذراہوا وقت دِھیان میں آتا ہے تو دِل بے اختیار گائوں میں گذری زندگی کے اْن بھر پور لمحوں کو یاد کرتا ہے۔ وہ سادہ لوح لوگ، سادہ سی بود و باش ، وہ بے ساختہ خوشیوں کی بہار دل د دماغ میں تازہ ہونے لگتی ہے۔ ہجرت کا دْکھ اْس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب آپ کو احساس ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ جو کچھ آپ پیچھے چھوڑ آئے ہیں وہ زندگی کا سب سے خوبصورت اور قیمتی حصہ تھا اور وہ پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ صرف ہماری کہانی نہیں ہے۔ یہ کہانی ہر اْس شخص کی کہانی ہے جو اپنے گائوں کے سکون کو چھوڑ کر شہر میں کے خوابوں کے تعاقب میں نکلا اورکامیابیوں کے باوجود اپنے دِل میں ہمیشہ ایک ناتمام خواہش لیے زندگی گزارتا رہا۔
گائوں کے گھر میں لگے تالے وقت کی بے رحم گردش کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ گھرجہاں کبھی شب و روز قہقہے گونجتے تھے اب مسلسل خاموش رہتے ہیں۔ جہاں صبح سویرے زندگی کروٹیں لیتی بیدار ہوا کرتی تھی وہاں اب مستقل سناٹا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دروازوں پر لٹکے تالے صرف لوہے کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ یادوں کے جھروکوں پر لگی بندشیں ہیں جو مکینوں کی واپسی کی منتظر رہتی ہیں۔دروازوں پر لگے تالے ایسے ہی اْن کا بوجھ اْٹھاتے ہیں جیسے کوئی بوڑھا درخت اپنی ہری بھری شاخوں پر خزاں کا بوجھ اْٹھائے پھرتا ہے۔ یہ خاموش تالے سوال کرتے ہیں کہ کہاں گئے وہ دِن جب یہ گھر آباد تھا؟ جب اِس گھر کی دیواروں میں قہقہوں کی بازگشت ہوا کرتی تھی۔یہ تالے ماضی کے گواہ ہیں لیکن مستقبل کے متعلق غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیںکہ کیا کبھی ایسا ہوگا کہ یہ دروازے دوبارہ کھلیں گے اور اِ س گھر میں زندگی دوبارہ لوٹ کر آئیگی اور درو دِیوار ایسے ہی کِھل اْٹھیں گے جیسے کبھی کِھلا کرتے تھے۔
گائوں سے اپنی زندگی کا سفر شروع کرنے والے لوگوں کی زندگی میں گھر، گائوں‘ شہر، ہجرت اور تالے مختلف پہلوئوں کے عکاس ہوتے ہیں۔ گھرتحفظ، اطمینان ، سکون، محبت، اور احساس کا گہوارہ ہوتا ہے جہاں انسان اپنی زندگی کے بہترین لمحات جیتا ہے۔ گھر کا حقیقی مطلب کوئی عمارت نہیں بلکہ وہ احساس ہے جو دِل کو خوشی سے بھردیتا ہے۔ گائوں فطرت کی گود ہے جہاں زندگی کی سادگی اور خالص پن پلتا ہے اور یہی خالص پن اِنسان کے اندر ایک دائمی یادگار کے طور پر محفوظ رہتا ہے۔شہر ترقی کی علامت ہے جہاں خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی جستجو اِنسان کو کھینچ لاتی ہے۔ہجرت ایک تلخ حقیقت ہے جو کئی لوگوں کہانی میں کرب کی علامت بن کر زندہ رہتی ہے۔ تالا ہجرت کی علامت ہے اور بند دروازے قفل زدہ یادوں کی کہانیاں ہیں۔ گائوں کے گھر کے دروازے پر لگا تالا یہ احساس دِلاتا ہے کہ جب کوئی گھر سے ہجرت کر کے نکلتا ہے تو وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ پاتا۔ تالا یہ احساس بھی دِلاتا ہے کہ زندگی کو بہرطور آگے بڑھنا ہیچاہے پیچھے کتنی ہی خوبصورت یادیں دِل و دماغ پر متمکن کیوں نہ ہوں۔
زندگی دو مختلف خیالات کی حامل پیڑھیوں کے درمیان بٹ کے رہ گئی ہے۔ ایک پیڑھی ہے جو ہجرت کے مضمرات سے آگاہ ہے اور مکین کے دْکھ سے آشنا ہے اور ایک پیڑھی ہے جو نہ ہجرت کے مضمرات سے آگاہ ہے نہ ہی مکین کے دْکھ درد کو سمجھ سکتی ہے۔پہلی پیڑھی ہے جو تالے کے گرد گھومتے فلسفے کو جانتی ہے اور دوسری پیڑھی نہ تو تالے کے گرد گھومتے فلسفے کو سمجھتی ہے اور نہ ہی تالے کے فلسفے پر قائل ہے۔عظمت شبیر پہلی پیڑھی کا نمائندہ ہے جو گذشتہ چار دِنوں سے گائوں میں ہے اور ماں کے حکم پر گھر کی مرمت و صفائی کے کام کی نگرانی کر رہا ہے۔ صفائی کے دوران ملنے والے سامان میں کٹورے، مٹی کے پرانے برتن، ہاتھ سے بْنی ہوئی چادریں اور کئی طرح کی ضرورت کی اشیاء ہیں۔ یہ تمام اشیاء  نہایت محبت سے بنائی یا خریدی گئی ہوں گی اور نہایت ہی نظم کے ساتھ گھر کے مختلف حصوں میں سجائی گئی ہو ں گی اور آج بھی مکینوں کی اْنسیت کا ثبوت ہیں۔ عظمت شبیر بھی اْس پیڑھی سے تعلق رکھتا ہے جن کے دِل کے کسی کونے میں گائوں کی مٹی کی خوشبو بستی ہے اور اِس پیڑھی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دِل میں یہ خواہش پلتی ہے کہ کبھی کسی لمحے وہ وقت کا تالا کھول کر ایک بار پھر لوٹ وہاں داخل ہوجائیں جہاںوقت کی قید نہ ہو اورفاصلوں کی دِیواریں نہ ہوں۔ جہاں صرف سادہ پن ہو،اخلاص ہو، اپنائیت ہو، محبت ہو، اور و ہ حسین یادیں ہوں جو تالوں میں بھی مقید نہ ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

حرمتِ استاد اور اقبال

بچہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے اس کے بعد اس کی سب سے پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ...