افغانستان سے دہشت گردی پھیلانے والی 23 تنظیموں کی نشاندہی

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندے پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو بری طرح متاثر کررہے ہیں اس لئے انکی وطن واپسی کا فیصلہ حکومت نے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے۔ غیرملکی باشندوں کو جو یہاں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں‘ غیرملکیوں کے طے شدہ اصولوں کے تحت باعزت طریقے سے واپس بھیجا جارہا ہے۔ گزشتہ روز پشاور کے دورہ کے موقع پر آرمی چیف نے بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کرنے والے افسروں اور جوانوں سے ملاقات کی اور انکی بے مثال کارکردگی کو سراہا۔ انہوں نے پہلی بار منعقد ہونیوالی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کامیابی پاکستان کا مقدر ہے۔ پاک فوج وطن عزیز کی حفاظت کا مقدس فریضہ خون کے آخری قطرے تک ادا کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کو خیبر پی کے کے غیور عوام کی پرعزم حمایت حاصل ہے۔ دشمن قوتوں کے مذموم عزائم ہم آہنگی اور جامع حکمت عملی کے ذریعے ناکام بنائے جا رہے ہیں۔ آرمی چیف نے نئے ضم شدہ اضلاع میں اقتصادی ترقی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ دورہ پشاور کے دوران انہیں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال‘ انسداد دہشت گردی کی جاری کارروائیوں‘ غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کی وطن واپسی اور نئے ضم شدہ اضلاع میں سماجی و اقتصادی ترقی کی پیشرفت کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی ملک میں اسکی آزادی اور خودمختاری کے تناظر میں کسی دوسرے ملک کے باشندے کو ماورائے قانون قیام اور کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پاکستان کا شہریت ایکٹ تو کسی غیرملکی کیلئے پاکستان میں دوہری شہریت اختیار کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا اور کوئی غیرملکی باشندہ پاکستان کی شہریت اختیار کرکے یہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کا خواہش مند ہو تو اسے پہلے اپنے ملک کی شہریت ترک کرنا ہوتی ہے جس کے بعد باقاعدہ قانونی پراسس کے تحت اسے پاکستان کی شہریت دی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے افغان پناہ گزینوں کے معاملہ میں قانون کی سختی برقرار نہیں رکھی جا سکی چنانچہ چار دہائی  قبل امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے دوران، جس میں اس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی جانب سے امریکی اتحادی کا کردار قبول کر رکھا تھا اور اس بنیاد پر افغان مجاہدین کو پاکستان کی جانب سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جارہی تھی‘ افغان باشندے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرکے پاکستان آنا شروع ہوئے تو مہاجرین کے معاملہ میں طے شدہ عالمی ضوابط کی بنیاد پر انہیں خیبر پی کے‘ اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں میں عارضی ٹھکانے فراہم کئے گئے۔ ان افغان مہاجرین کی تعداد بڑھتے بڑھتے 40 لاکھ کے قریب جا پہنچی جن کی حکومت پاکستان مہمان نوازی کرتی رہی جبکہ انہیں پاکستان کے شہری کا درجہ ہرگز حاصل نہیں تھا۔ ان مہاجرین میں افغان مجاہدین بھی بڑی تعداد میں شامل تھے جو اپنے ساتھ کلاشنکوفیں اور دوسرا اسلحہ بھی لے کر آئے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ عارضی ٹھکانوں سے نکل کر یہاں جائیدادیں خرید کر کاروبار بھی شروع کر دیا جس میں ہیروئن کی کاشت کا کاروبار نمایاں تھا۔ چنانچہ افغان مہاجرین کی سرگرمیوں اور ان  کے سوسائٹی میں عمل دخل سے ہمارے سماجی ثقافتی کلچر میں بھی بتدیلی آنے لگی۔ انہی افغان مہاجرین میں سے بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں کی شکل میں مختلف مافیاز بھی نمایاں ہونے لگے جس سے یہاں جرائم کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ 
اصولی طور پر تو امریکہ روس سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد افغان مہاجرین کو اسی وقت انکے ملک واپس بھجوا دیا جانا چاہیے تھا مگر حکومتی‘ سیاسی سطح پر مختلف مصلحتیں اور مفادات آڑے آتے رہے اور افغان مہاجرین نے بغیر کسی قاعدے قانون کے پاکستان میں مستقل قیام اور کاروبار کرنا اپنا استحقاق سمجھ لیا چنانچہ امریکی نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے نیٹو فورسز کے ذریعے افغان جنگ کا آغاز کیا تو افغان مہاجرین کی شہ میں افغانستان کے انتہاء  پسند گروپوں کی بھی پاکستان میں آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا جن میں افغان طالبان بھی شامل تھے۔ انہوں نے افغان دھرتی پر اپنی گوریلا کارروائیوں کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لئے اور افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان کو بھی اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں اور خودکش حملوں کے ہدف پر رکھ لیا۔ پاکستان کی سرزمین پر ہونیوالی ان وارداتوں کی تو باقاعدہ تاریخ مرتب ہو چکی ہے جو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے دس ہزار سے زائد جوانوں اور افسران سمیت پاکستان کے 80 ہزار کے لگ بھگ شہریوں کی جانوں کے نذرانوں سے رقم ہوئی ہے۔ چنانچہ پاکستان کو امریکی مفادات کی جنگوں میں شریک ہونے کا خمیازہ عملاً دوبار بھگتنا پڑا جبکہ افغان باشندوں کے ساتھ کی گئی مہربانی کا صلہ ہمیں آج طالبان حکومت کی جانب سے بھی پاکستان میں دہشت گردی کیلئے دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کی صورت میں مل رہا ہے۔
اس امر پر تو اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ پاکستان میں اب تک جاری دہشت گردی کی 90 فیصد سے زائد وارداتوں میں افغانستان کی طرف سے پاک افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہونے والے باشندے ہی ملوث ہیں جن کے مکمل ثبوت اور شہادتیں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے پاس موجود ہیں جبکہ ان دہشت گردوں کو افغان مہاجرین کی شہ پر ہی یہاں محفوظ ٹھکانے بنانے  کا موقع ملا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر دہشت گرد بھارت کے تربیت یافتہ ہیں جنہیں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ افغان سرزمین پر تربیت دیکر پاکستان میں داخل کرتی ہے۔ پاکستان میں قائم ’’را‘‘ کا یہ نیٹ ورک بھارتی جاسوس کلبھوشن کی سرپرستی میں چل رہا تھا جس  نے خود اپنی گرفتاری کے بعد اس کا  اعتراف کیا۔ پاکستان کے علاوہ اس پورے خطے اور دنیا میں دہشت گردی پھیلانا بھی اسی نیٹ ورک کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کا انکشاف دو سال قبل ایک امریکی جریدے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کیا تھا۔ اب ایشیاء￿ پیسیفک فورم کی جانب سے حال ہی میں منظرعام پر آنیوالی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان سے 23 دہشت گرد تنظیمیں امریکہ‘ چین‘ اور پاکستان سمیت دنیا کے لگ بھگ 53 ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔ ان میں سے 17 دہشت گرد تنظیموں نے صرف پاکستان کو اپنے ہدف پر رکھا ہوا ہے جس میں افغان حکومت  کا مرکزی کردار ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانے بنانے کیلئے سب سے بڑی سہولت یقیناً افغان مہاجرین کے ناطے سے حاصل ہوئی ہے چنانچہ یہ صورتحال ہمارے لئے اس حوالے سے بھی لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ ہم دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے خود ہی سہولتیں بہم پہنچا رہے ہیں جبکہ ان کا ایجنڈا ہی ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا ہے۔ 
یقیناً اسی پس منظر میں ملک کی حکومتی‘ سیاسی‘ اور عسکری قیادتوں نے قومی ایپکس کمیٹی کے پلیٹ فارم پر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں باہم مشاورت کرکے  غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کو 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی تھی جس پر کابل کی طالبان حکومت ہی کی جانب سے سب سے پہلے سخت ردعمل سامنے آیا اور پاکستان کے اندر بھی انکے ہمدرد بعض سیاسی عناصر کی جانب سے ردعمل کا اظہار ہونے لگا۔ جب یہ بات تسلیم شدہ اور تصدیق شدہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں میں افغانستان سے آنیوالے دہشت گرد ہی ملوث ہیں جنہیں یہاں موجود افغان مہاجرین نے شیلٹر دے رکھی ہے‘ تو ان سانپوں کو اپنی دھرتی پر مزید پالنا ملک کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور دوسرے باشندوں کی انکے ممالک واپسی پر کسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیار کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں نکلتی۔ اگر انخلاء کے عمل میں وہ ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کریں تو انکے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیے اور ملک کی سلامتی و خودمختاری کو بہرصورت محفوظ بنانا چاہیے۔ یہی ہماری عسکری اور سول قیادتوں کیلئے بڑا چیلنج ہے۔

ای پیپر دی نیشن