حکیم عنایت اللہ نسیم سوھدروی علیگ
حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم کا انتقال 9دسمبر 1994ءکو ہوا تھا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے حکیم عنایت اللہ نسیم صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ 1990ءمیں حکیم راحت نسیم نے مجھے دعوت دی کہ سوہدرہ میں آﺅں جہاں ایک خصوصی تقریب ہونا تھی۔ میں مقررہ تاریخ پر سوہدرہ پہنچا تو مجھے محترم حکیم عنایت اللہ نسیم کے ساتھ سٹیج پر جگہ دی گئی۔ یہ دن ایک یادگار دن کی طرح میری یادوں کے آئےنے میں جھلکتا رہتا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ مولانا ظفر علی خان کی مجھ پر شفقت اتنی زیادہ تھی کہ آج میں شہرت کے جس مقام پر کھڑا ہوں۔ یہ سب مولانا ظفر علی خان کی شفقت کا ثمر ہے۔
عنایت اللہ نسیم جب طالب علم تھے تو سکول جاتے ہوئے کرم آباد سے گزرتے تو مولانا ظفر علی خان کی خدمت میں ضرور حاضری دیا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان نے عنایت اللہ کو ہدایت کی کہ وہ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ کے تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیں۔ قادیانیت سے دشمنی کا پہلا بیج عنایت اللہ صاحب کے دل میں مولانا ہی نے بویا تھا جو بعد میں ایک سایہ دار شجر بن گیا۔ جب عنایت اللہ نسیم سوہدرہ سے علی گڑھ روانہ ہوئے تو مولانا ظفر علی خان نے علی گڑھ کی تہذیبی قدروں اور اسلام کے لئے قربانی دینے کے جذبے کو ان کی رگ وپے میں اتار دیا تھا۔ عنایت اللہ نسیم علی گڑھ تحریک میں اس وقت شامل ہوئے جب ہندو اور انگریز مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہورہے تھے۔ اور مذہبی زاویے سے مسلمانوں کو آریہ سماجیوں کے علاوہ عیسائیوں اور قادیانیوں کی اسلام دشمن پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ عنایت اللہ نسیم نے تینوں طاقتوں کے خلاف محاذ بنا کر زبردست کامیابیاں حاصل کیں۔ علامہ اقبال سے بھی ملے اور انہیں دعوت دی کہ وہ مسلم یونیورسٹی میں آکر قادیانیوں کے عقیدے کا پردہ چاک کریں۔ علامہ اقبال ان دنوں شدید بیمار تھے۔ انہوں نے علی گڑھ جانے پر معذرت کرتے ہوئے ایک بے حد با معنی اور پرزور میمورنڈم ٹائپ کروایا اور اس پر دستخط کرنے کے بعد عنایت اللہ نسیم کو ہدایت کی وہ اس میمورنڈم پر مولانا ظفر علی خان کے دستخط بھی کروالیں۔ انہوں نے علامہ اقبال کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان کے ساتھ میمو رنڈم کے ایک طرف علمائے امت اور دوسری طرف اکابرین ملت کے دستخط بھی کروادیئے پھر اس کی بہت سی نقول بنوا کر یونیورسٹی میں تقسیم کردیں۔ ان ہی دنوں میں وائس چانسلر نے قادیانی ظفر اللہ خان کی علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک تقریر کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ عنایت اللہ نسیم کے پھیلائے میمو رنڈم نے مسلمان طلباءکے جذبات بھڑکا دیئے لہٰذا وائس چانسلر نے سرظفر اللہ کو لکھا کہ وہ یونیورسٹی تشریف نہ لائیں اور ان کا دعوت نامہ منسوخ کردیا۔
فروری 1938ءمیں عنایت اللہ نسیم کو قائداعظم کی خدمت میں حاضری کا شرف نصیب ہوا جب وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں طلباءکی دعوت پرآئے تھے۔ انہیں قائداعظم نے پہلی ملاقات کا اعزاز مولانا ظفر علی خان کے توسط ہی سے لکھنوَ میں ملا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبائنے قائداعظم سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بگھی سے گھوڑے نکلوا کر بگھی کو اپنے شانوں پر کھینچ کر یونیورسٹی لائے۔ بگھی کھینچنے والے طلباءمیں عنایت اللہ نسیم پیش پیش تھے۔ پٹنہ کے ایک اجلاس میں فیروز الدین احمد نے قائداعظم زندہ باد کا پہلا نعرہ لگایا۔ عنایت اللہ نسیم کا اعزازکچھ کم نہیں کہ وہ اس ”عطائے لقب“ کے عینی شاہد تھے اور فیروز الدین احمد کے نعرے پر زندہ باد کہنے والوں میں شامل تھے۔
سیاست کے علاوہ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی نے حکمت اور سماجی بھلائی کے بھی بہت سے کام کئے اور بہت سی عوامی سہولیات کے لیے تنظیمیں میں بنائیں۔ بہت سے اخبارات اور روزنامہ نوائے وقت میں کالم نویسی بھی کی۔ مسلمان بچوں کو تعلیمی میدان میں لانے کا کام بھی کیا اور بہت سی کتابیں بھی لکھیں۔ کچھ کتابیں ان کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکیں جو دسمبر 1994ءمیں ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے حکیم راحت نسیم سوہدروی نے شائع کروائیں۔ ایک کتاب ”حیات نسیم،درحدیث دیگراں “ ہے جو حکیم راحت نسیم نے اپنے نام سے شائع کروائی ہے اس کتاب میں 55مضامین میں نامور ادیبوں اور حکماءنے حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے ۔حکیم راحت نسیم سوہدروی نے اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حکمت میں بھی نام پیدا کیا اور ادبی میدان میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی شخصیت میں حکیم عنایت اللہ نسیم کی نمایاں جھلک دکھلائی دیتی ہے۔
مرنے کے بعد بھی نظر آتے ہیں وہ یہاں
راحت نسیم میں ہیں بہت ان کی جھلکیاں
٭....٭....٭