وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی کا اپنی ایئرلائن بنانا بڑی پیشرفت ہے، آنیوالے دنوں میں سیالکوٹ ایکسپورٹرز کا مرکز بن جائیگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صنعتی ترقی کے حوالے سے پاکستان کے لئے ہم چینی ماڈل اپنانا چاہتے ہیں،1970ء کی دہائی میں پاکستان کی صنعتی پالیسیاں غلط نہ ہوتیں تو پاکستان کی صنعت کہاں سے کہاں پہنچ جاتی، کوشش ہے چھوٹے اور درمیانے درجہ کی صنعتوں کیلئے آسانیاں پیداکریں ۔ ان خیالات کااظہاروزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز سیالکوٹ میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ میں آج میں سیالکوٹ میں تاجر طبقہ سے ملنے آیا ہوں اور آج میں نے ایئر سیال کا افتتاح کیا ہے، ایئرلائن کا افتتاح تو ایک بہانہ ہے لیکن اصل میں میں یہ چاہتا تھا کہ میں پاکستان کی سب سے اہم بزنس کمیونٹی سے بات چیت کروں۔ا نہوں نے کہا کہ ایئرسیال سے سیالکوٹ کو فائدہ پہنچے گا، آنے والے دنوں میں سیالکوٹ پورے پاکستان کا سب سے بڑا ایکسپورٹس کا مرکز بننے جارہا ہے۔ پی آئی اے کے لئے ایک مسابقت کا ماحول پیداہو گااور وہ دیکھیں گے کہ ایک شاندار ایئرلائن چل رہی ہے، کم خرچے پر چل رہی ہے، اچھی سروس دے رہی ہے تو پی آئی اے اوردیگر ایئرلائنز پر بھی دبائو پڑے گا اور وہ بھی سروس میںبہتری لائیں گی اس سے پاکستان کا فائد ہ ہوگا۔ ا نہوں نے کہا کہ جب پوری دنیا میں کوروناوباء پھیلی تو پوری دنیا نے ایک بڑا مشکل فیصلہ کرنا تھا، اس وائرس کو روکنے کا بہترین طریقہ لاک ڈائون ہے، جب زیادہ لوگ کسی جگہ جمع ہوتے ہیں اور ماسک نہیں پہنتے تو کوروناوائرس پھیلتا ہے۔ میں ماسک نہ پہننے والے سب لوگوں تو تاکید کرتا ہوں کہ آپ ماسک ضرور پہنیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کرم کیا اور پاکستان کوروناوائرس کی پہلی لہر سے کامیابی سے نکلا اور اس میں عوام نے ہمارے ساتھ پوری طرح تعاون کیا، عالمی ادارہ صحت نے کوئی سات ممالک بتائے جو شاندار طریقہ سے کوروناوائرس سے نمٹے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہم نے اپنے لوگوں کا روزگار بھی بچایا، کاروبار بھی بتایا اور لوگوں کو بھی کوروناوائرس سے بچایا، امریکہ میں چار روز کے دوران کوروناوائرس سے اتنے لوگ مرتے ہیں جتنے ہمارے ہاں سات ماہ میں نہیں مرے، وہاں اتنی تیزی سے کوروناپھیل رہا ہے اور انہوں نے کیلی فورنیا میں پورالاک ڈائون کیا ہوا ہے۔ برطانیہ میںبڑا سخت لاک ڈائون ہے، اٹلی میں کیاہواہے۔ اگر ہم ابھی سے احتیاط کریں جس طرح ہم نے پہلے کی تھی تو سردیوں میں ہم اپنے ملک کو، اپنی صنعت اور اپنے لوگوں کو بھی بچاسکتے ہیں۔ اس وائرس کو روکنے کا سب سے آسان طریقہ ماسک ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں کاروباری طبقہ کی بھر پور طریقہ سے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ پاکستان میں دوبارہ انڈسٹری لائزیشن شروع، 1960کی دہائی میں پاکستان خطہ میں تیزی سے صنعتوں کو فروغ دے رہا تھا، پاکستان کی صنعتی پیداوار کی ایشائی ممالک کی پیداوار کو ملا کر بھی زیادہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس ا نداز سے پاکستان آگے بڑھ رہا تھا اور 1970ء کی دہائی میں پاکستان کی صنعتی پالیسیاں غلط نہ ہوتیں تو پاکستان کی صنعت کہاں سے کہاں پہنچ جاتی، بدقسمتی سے جو پالیسیاں تھیں وہ کاربار اور صنعت کے خلاف تھیں، اس کے بعد یہ پہلی حکومت آئی ہے جس کی پالیسی ملک میں صنعتی انقلاب لانا ہے، ہماری پالیسی ہے کہ ہم نے اپنے کاروباری طبقہ کو سہولیات دینی ہیں، ان کی رکاوٹیں ختم کرنی ہیں، ان کے لئے کاروباری آسانیاں پیداکرنی ہیں تاکہ سرمایہ کاری بڑھے اور یہ ہم نے کیوں کرنا ہے کیونکہ میری حکومت کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ملک میں غربت کم کی جائے اور لوگوں کو غربت سے نکالاجائے اور جو نچلا طبقہ ہے اس کو اوپر اٹھایا جائے اور جو بھی پاکستان میں علاقے پیچھے رہ گئے ہیں ان کے اوپر خاص توجہ دی جائے۔ گلگت بلتستان پیچھے رہ گیا ، سابقہ فاٹا پیچھے رہ گیا، بلوچستان پیچھے رہ گیا، پنجاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا ضلع ڈیرہ غازی خان اور وزیر اعلیٰ کا جو اپنا علاقہ ہے وہ سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ ترقی یکساں ہوتی ہے، اگر آپ کسی چھوٹے سے علاقہ کو ترقی دے دیں اور باقی ملک پیچھے رہ جائے تو وہ ملک ترقی نہیں کرسکتا اور وہ ملک بھی ترقی نہیں کرسکتا جہاں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر ہوجائے اور باقی لوگ غریب ہو جائیں، یکساں ترقی کے حوالہ سے ہمارے پاس جدید دور میں ماڈل چین ہے، چین گذشتہ30سال میں اپنے نچلے طبقہ کو اوپر اٹھا کر ایک معاشی قوت بن گیا،انہوں نے35سال میں 70کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، اب جو ان کے علاقے پیچھے رہ گئے ہیں ان پرتوجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کی ایک اور بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ چین اپنے مغربی علاقے جو پیچھے رہ گئے ہیں اس کو گوادار کے سمندر سے جوڑنا چاہتا ہے تاکہ اس کی تجارت سمندر سے منسلک ہو جائے اور وہ اپنی چیزیں دنیا کو بیچ سکیں، ہم نے بھی اب پوری کوشش کرنی ہے کہ جو ہمارے علاقے پیچھے رہ گئے ہیں اور جہاں احساس محرومی بڑھتی جارہی ہے ان کو اوپر اٹھائیں اور اپنے غریب اور کمزور لوگوں کے لئے پوری پالیسیاں بنائیں۔ احساس پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے کہ ان حالات کے اندر بھی ہم نچلے طبقہ کو اوپر لانے کے لئے پیسہ خرچ کررہے ہیں لیکن اس سب کے لئے دولت بڑھانے کی ضرورت ہے جب تک ہمارے ملک کی دولت نہیں بڑھے گی ہم لوگوں کو غربت سے نہیں نکال سکتے،چین نے بھی یہی کیا اور ساتھ ساتھ صنعتیں لگائیں، خصوصی اقتصادی زونز بنائے، ایکسپورٹس زونز بنائے اور ساری دنیا سے سرمایہ کاری ان ایکسپورٹس زونز کے اندر متوجہ کی ، پہلے باہر کی کمپنیوں نے آکر سرمایہ کاری کی پھر چینی کمپنیاں اوپر آنا شروع ہو گئیں،چین نے صنعتی انقلاب لا کر اور سب سے زیادہ ایکسپورٹس بڑھائیں،پاکستان کے لئے یہی ماڈل ہم اپنانا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ جس طرح ہم سیالکوٹ کی صنعت کی پوری مدد کریں ، ہر قسم کی آپ کو سہولیات دیں، جتنی صنعتیں لگیں گی اس سے سیالکوٹ کا تو فائدہ ہوگا لیکن پورے پاکستان کا بھی فائدہ ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نہیں ، ہم جب شروع میں آئے تو ہمارے پاس پیسہ ہی نہیں تھا، ہمارے پاس غیر ملکی ادائیگیوں کے لئے پیسہ ہی نہیں تھا، کئی چیزوں میں ہم ڈیفالٹ کررہے تھے ، یہ پاکستان کی70سالہ تاریخ میں مسلسل یہ مسئلہ درپیش آتا ہے کہ جیسے ہی شرح نمو بڑھنا شروع ہوتی ہے ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی بڑھناشروع ہو جاتاہے، ہم دنیا کو بہت کم ایکسپورٹ کرتے ہیں اور امپورٹ بہت زیادہ کرتے ہیں، جیسے جیسے کرنٹ اکاوئٹ خسارہ بڑھتا ہے روپے پر دبائو پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور جب روپیہ گرتا ہے تو ملک میں مہنگائی آجاتی ہے اور ساری چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں، اہم چیز یہ ہے کہ سارے ملک کو اس بات کا احساس کرنا ہے کہ ہم نے اپنی برآمدات بڑھانی ہیں اور یہ ملک کی ضرورت ہے کہ ہم سیالکوٹ کی مدد کریں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گوجروانوالہ، سیالکوٹ ، گجرات اور وزیر آباد یہ سارا علاقہ ایکسپورٹس کے لئے ہمارا بہترین علاقہ ہے اس کے علاوہ کراچی اور فیصل آباد کی بھی ہم مددکریں تو ایکسپورٹس بڑھیں گی اور اس سے ملک کا فائدہ ہوگا۔ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت ملک میں سب سے زیادہ روزگاردیتی ہے، ہمارے پاس ایک نوجوان آبادی ہے اور ہم نے مسلسل ان کے لئے نوکریاں پیداکرنی ہیں اور وہ نوکریاں خاص طور پر صنعت سے پیدا ہوتی ہیںاوراس میں بھی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں سے پیداہوتی ہیں، وزیر اعظم آفس کے ماتحت اور حماد اظہر کی سربراہی میں ٹاسک فورس کی پوری کوشش ہے کہ صنعتوں کو درپیش مشکلات کودورکریں اور چھوٹے اور درمیانے درجہ کی صنعتوں کے لئے آسانیاں پیداکریں۔ ہم یہاں ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ یونیورسٹی بھی بنارہے ہیں۔آسٹرینز اور جرمنز انجینئرنگ میں بہت آگے ہیں ہم نے آسٹریا کے ساتھ مل کر ہری پور میں ایک یونیورسٹی شروع کی ہے جس نے کام شروع کردیا ہے اور سیالکوٹ میں بھی ہری پور کی طرح کی یونیورسٹی بنارہے ہیں اور وہ صنعتی انقلاب لانے میں مدد دے گی۔ دوہفتے بعد میں دوبارہ سیالکوٹ کے تاجروں سے ملوں گا اس سے قبل آپ نے عبدلرزاق دائود اور حمار اظہر کو اپنے مسائل کے حوالہ سے بتاناہے۔ میرے ساتھ جو ملاقات ہو گی اس میں بیٹھ کر تاجرو ں کے جومسائل ایف بی آرسے ہیں، سٹیٹ بینک آف پاکستان سے ہیں اور یوٹیلیٹی کمپنیوں سے ہیں وہ سارے ایک ہی وقت میں بیٹھ کر حل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جو اپنا نیا لوکل گورنمنٹ کا نظام لارہے ہیں اس میں شہروں میں سٹی گورنمنٹس لے کر آرہے ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مئیر براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوگا، جس طرح لندن، پیرس اور نیویارک کا میئر ہوتا ہے اسی طرح ایک جدید میٹروپولیٹین سٹی کا سیٹ اپ ہم لے کر آرہے ہیں۔ اپریل کے بعد ہم لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کروائیں گے ۔ لوگوں کے مسائل اپنے شہر میں ہی حل ہوں گے۔ عمران خان نے ایئرسیال کی انتظامیہ کو مبارکباد دی اور کہا کہ ابھی ایئرلائن نے تین جہاز لیز پر لئے ہیں اور جو انتظامیہ کا جذبہ دیکھ رہا ہوں تو مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ پاکستان کی ایک مثالی ایئرلائن بنے گی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار، وفاقی وزیر برائے صنعت وپیداوار بیرسٹر محمد حماد اظہر،وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود،وزیر اعظم کے معاون خصوصی برئے یوتھ افیئرز محمد عثمان ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور دیگر پی ٹی آئی رہنما بھی اس موقع پر موجود تھے۔