پاکستان کی کوششیں رنگ لائیں افغانستان میں امن کی امید نو طالبان امریکہ مذاکرات 3 ماہ بعد بحال
افغانستان کیلئے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ رواں برس ستمبر میں تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات 3 ماہ بعد باقاعدہ طور پر بحال کر دیئے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اپنے بیان میں کہا کہ مذاکرات میں ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کیلئے طالبان کو قائل کرنے پر توجہ دے رہے ہیں اور زلمے خلیل زاد افغانستان کے اندر فریقین میں مذاکرات کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کے ساتھ ملاقات قطر میں ہوئی جہاں طالبان کا سیاسی دفتر بھی قائم ہے جبکہ اس سے قبل بھی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں زلمے خلیل زاد کے افغان صدر اشرف غنی سمیت دیگر سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے تھے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکی نمائندہ خصوصی تشدد میں کمی پر زور دے رہے ہیں۔ زلمے خلیل زاد نے طالبان رہنمائوں سے ملاقات کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ادھر ترجمان طالبان شاہین نے مذاکرات شروع ہونے کی تصدیق کرتے کہا آج دوسرا دور ہو گا۔ سلسلہ وہاں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ طالبان کے ڈپٹی لیڈر کے بھائی انس حقانی بات چیت میں شریک ہیں۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے میں طالبان میں معاملات طے کرنے کا عندیہ دیا تھا، امریکی حکومت چاہتی ہے اگلے سال صدارتی الیکشن سے قبل کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور وہ بھی بغیر کسی شرط کے۔ امریکہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی شرط سرنڈر تھا یعنی طالبان ہتھیار رکھ دیں۔ دوسری طرف طالبان مذاکرات کیلئے غیر ملکی افواج کے انخلاء سے کم پر تیار نہیں تھے گویا فریقین دو انتہائوں پر تھے پاکستان نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں کو غیر مشروط طور پر مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔ مذاکرات کے متعدد ادوار ہوئے جن میں توقعات سے بڑھ کر پیش رفت ہوئی۔ سلسلہ اطمینان بخش طور پر چلا اور آگے بڑھ رہا تھا، فریقین کے جلد حتمی معاہدے پر پہنچنے کی امید تھی جس کا اظہار امریکہ اور طالبان کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔ معاملات جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے افغانستان میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کے بجائے شدت پسندی اور آپریشنز میں اضافہ ہو رہا تھا۔ افغان انتظامیہ کی جانب سے طالبان پر حملوں میں تیزی آ گئی۔ طالبان بدستور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ مذاکرات کے دوران اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت تھی۔
امریکہ طالبان مذاکرات کی اشرف غنی انتظامیہ نے کھل کر مخالفت کی۔ امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل کو وائسرائے قرار دیتے ہوئے اپنے آپ میں رہنے کو کہا گیا، جس پر امریکہ کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ طالبان افغان انتظامیہ کے حملوں کا جواب دے رہے تھے اس دوران طالبان کی ایک کارروائی میں درجن بھر افغان فوجیوں کے ساتھ ایک امریکی فوجی بھی مارا گیا۔ ٹرمپ نے اس پر آبلہ پا ہو کر مذاکرات کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے طالبان کے خلاف سخت کارروائیوں کا حکم دیا جو پہلے بھی کچھ کم نہ تھیں۔
افغان انتظامیہ کو اپنی بقا سٹیٹس کو نظر آتی ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کرتا آ رہا ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی اس کے مذموم مقاصد کو مسدود کر سکتی ہے لہٰذا امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی اس کے مفادات پر زد کی حیثیت رکھتی ہے۔ افغان انتظامیہ اور بھارت ان مذاکرات کے خاتمے کیلئے کوشاں رہے اور سازشوں کے جال بنتے رہتے ہیں۔ بھارت کے ایما ہی پر افغان انتظامیہ بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے حالانکہ پاک افغان سرحد سیل ہونے سے افغانستان کے وہ تحفظات دور ہو سکتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ان الزامات میں قطعی صداقت نہیں، یہ الزامات صرف امریکہ کو پاکستان کے خلاف برگشتہ کرنے کیلئے عائد کئے جاتے ہیں جبکہ بھارت کے پالتو دہشت گرد افغان انتظامیہ کے تعاون سے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے در آتے ہیں۔ ان کو روکنے کیلئے پاکستان 27 سو کلو میٹر طویل اور دشوار سرحد پر باڑ لگا رہا ہے۔
افغانستان میں بدامنی اور دہشت گردی کی فضا نے سب سے زیادہ نقصان ملک افغاں اور اس کے شہریوں کو پہنچایا۔ لاکھوں افراد خاک اور خون میں مل گئے۔ افغانستان ہی کے باعث خطے کا امن تہہ و بالا ہوا اور افغانستان کے بعد سب سے زیادہ بھیانک اثرات افغانستان میں دہشت گردی کے پاکستان پر مرتب ہوئے اور پاکستان میں دہشت گردی در آئی، 7 ہزار فورسز کے سپوتوں کے ساتھ 60 ہزار پاکستانی اس نامراد جنگ کا ایندھن بن گئے، معیشت زبو حالی سے دوچار ہوئی۔ اس لئے پاکستان کی کوشش رہی کہ افغانستان میں کسی بھی طرح امن بحال ہو سکے۔ خطے کے ممالک چین، روس، ایران اور دیگر بھی افغانستان میں امن کیلئے کوشاں رہے۔ پاکستان نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ اور طالبان کو براہ راست مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا تھا اور یہ سلسلہ اس وقت منقطع ہو گیا جب طالبان کی جوابی کارروائی میں ایک امریکی فوجی بھی مارا گیا۔ مذاکرات میں تعطل امن کی کوششوں کو دھچکا تھا۔ پاکستان کو ایک بار پھر فریقین کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کیلئے سرگرم ہونا پڑا اور بالآخر 3 ماہ بعد پھر مذکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
مذاکرات کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں بدستور بروئے عمل ہیں، ان میں افغان انتظامیہ جو طالبان کے ساتھ خود بھی مذاکرات کر رہی ہے مگر منافقت اس کی گھٹی میں موجود ہے۔ وہ کسی صورت طالبان کو شریک اقتدار نہیں کرنا چاہتی جبکہ طالبان مذاکرات تو غیر مشروط طور پر کر رہے ہیں وہ اقتدار میں سرِدست حصہ نہیں بھی مانگتے تو غیر جانبدارانہ انتخابات کا مطالبہ ضرور کریں گے۔ اگر امریکہ معروضی حالات میں انخلاء پر رضا مند ہو جاتا ہے تو ماضی کی طرح افغان حکومت ایک ماہ سے بھی قبل خش و خاشاک ثابت ہو گی۔
امریکہ کو ایسی قوتوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے موقع کی تلاش میں ہیں۔ افغان انتظامیہ کے ساتھ بھارت بھی مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتے برداشت نہیں کر سکتا۔ امریکہ اور طالبان مذاکرات میں سنجیدہ ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی کا زیادہ انحصار امریکی رویے پر ہے۔ افغانستان میں آج بھی امریکہ کو تمام معاملات اور امور پر مکمل اختیار حاصل ہے گو بہت سے امور طالبان اور افغان انتظامیہ کے مابین بھی طے ہونے ہیں مگر امریکہ کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مذاکرات میں کامیابی اور ان کو سبوتاژ ہونے سے بچانے کیلئے سرِدست امریکہ اور طالبان کو اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے مذاکرات کے منطقی انجام کو پہنچنے تک فریقین بلاتاخیر جنگ بندی پر اتفاق کر لیں۔