انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے وفدنے پاکستان کا دورہ کیا۔ وفد کی راجا عبدالعزیز نے قیادت کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دورے کے دوران وفد نے پاکستان نیو کلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ظہیر ایوب بیگ اور پاکستان جوہری توانائی کمیشن کے چیئرمین محمد نعیم سے بھی ملاقات کی۔ وفد نے کراچی نیو کلیئر پاور پلانٹ کا دورہ کیا اور پاکستان کی جانب سے آئی اے ای اے کی سفارشات کے مطابق کئے جانے والے جوہری سلامتی کے اقدامات کی تعریف کی۔
آئی اے ای اے کے وفد کا یہ دورہ پاکستان نیو کلیئر سکیورٹی کو آپریشن پروگرام کا ایک حصہ تھا اس پروگرام کو 2011ء میں بڑھایا گیا تھا تاکہ اضافی شعبوں کو بھی شامل کیا جا سکے، اس پروگرام کے تحت تمام سرگرمیاں پاکستان نیو کلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے زیر انتظام ہیں۔ جوہری سلامتی ریاست کی ذمہ داری ہے اور پاکستان نے اسے مضبوط بنانے کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ تعاون کیا۔ پاکستان جوہری سلامتی کو فروغ دینے کی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔دوسری طرف بھارت کا رویہ دیکھا جاسکتا ہے جس کا ایٹمی پروگرام نہ تو محفوظ ہے نہ ہی بھارت انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ وہ سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کو ایٹمی مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اس کا ایٹمی پروگرام کئی مرتبہ حادثات کا شکار ہو چکا ہے، اس کے کئی ایٹمی سائنسدان قتل کئے جا چکے ہیں۔ بھارت ایٹمی پھیلائو میں بھی ملوث رہا مگر اس کے چور مچائے شور کے مصداق اس نے پاکستان کو ایٹمی پھیلائو میں ملوث ہونے کے پراپیگنڈے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بھارت نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حصول کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ گروپ ایسے ممالک کا گروپ ہے جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے قوانین کے تحت جوہری مواد سپلائی کرنے کیلئے قوانین پر عملدرآمد کرواتا ہے۔ ایک طرح سے یہ جوہری مواد کی پرامن مقاصد کیلئے تجارت کا نگران ادارہ ہے۔ این ایس جی کا قیام 1974 میں بھارت کے جوہری دھماکے کرنے کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ این ایس جی کے رہنما قوانین میں ’جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ‘ کا اصول 1994 میں شامل کیا گیا تھا۔ اس گروپ کا کوئی رکن ملک جوہری مواد کی سپلائی صرف اسی صورت میں کرے گا جب وہ اس بات کا اطمینان کر لے کہ اس سپلائی کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ نہیں ہو گا۔ بھارت کو امریکہ سمیت کچھ ممالک کی جانب سے سپلائر گروپ کی رکنیت دلانے کی کوشش ہوتی رہی ہے جس کا اپنا پروگرام ہی محفوظ نہ ہو اس کو کس طرح سپلائر گروپ کا ممبر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ گروپ بنایا ہی بھارت کے غیر قانونی دھماکوں کے نتیجے میں تھا۔ پاکستان نے 2016ء میں نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حصول کی درخواست دے رکھی ہے۔ پاکستان نے نیو کلیئر پروگرام کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور عالمی قوانین پر کاربند رہا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی محفوظ ہے۔ چین اور ترکی نے پاکستان کی حمایت کی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان اس گروپ کی رکنیت کا زیادہ اہل اور حقدار ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024