حضرت نوفل ایاس ہذلی رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں ، حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمارے ہم جلیس تھے اور وہ بڑے ہی اچھے ہم مجلس تھے۔ایک دن ہمیں اپنے گھر لے گئے ، ہمیں بیٹھک میں بٹھا کر گھر کے اندر گئے،غسل کرکے باہر تشریف لائے اورہمارے ساتھ بیٹھ گئے ، تھوڑی دیر بعد اند ر سے ایک پیالہ آیا جس میں روٹی اورگوشت کا سالن تھا، جب وہ پیالہ ہمارے سامنے رکھا گیا توحضرت عبدالرحمن بن عوف رو پڑے۔ہم نے ان سے پو چھا : اے ابو محمد!آپ کیوں رو رہے ہیں؟انھوںنے فرمایا:ہمارے آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اس حال میں دنیا سے تشریف لے گئے کہ آپ نے اورآپ کے اہل خانہ نے کبھی جَو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اس لیے میرے خیال میں یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ نے آپ کے بعد ہمیں جو دنیا میں زندہ رکھا ہے اوردنیا کی وسعت عطافرمائی ہے ہماری یہ حالت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت سے بہتر ہواورہمارے لیے اس میں زیادہ خیر ہو۔(ترمذی، ابونعیم)
حضرت ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روزے سے تھے ، ان کے پاس افطار کے لیے کھانا لایا گیا تو اسے دیکھ کر فرمایا:حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے،انھیں شہید کردیا گیا ،انھیں ایک ایسی چادرمیں کفن دیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ اگر ان کا سر ڈھانپ دیا جاتا تو اُن کے پائوں کھل جاتے اوراگر پائوں ڈھانپ دیے جاتے تو ان کاسر کھل جاتااورحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے بہتر تھے ، ان کو بھی شہید کردیا گیا ۔پھر اس کے بعد ہم پر دنیا کی بہت وسعت ہوگئی اورہمیں اللہ کی طرف سے دنیا کی فراوانی کردی گئی،اب ہمیں ڈر ہے کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ دنیا میںہی تو نہیںدے دیا گیا یہ کہہ کر آپ نے رونا شروع کردیا ۔(صحیح بخاری، ابونعیم)
حضرت طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ شدید علیل ہوگئے اور ان کی وصال کے آثار نمایاں ہوگئے ، چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے ، انھوںنے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے کہا :اے ابو عبداللہ !آپ کو خوشخبری ہو کہ آپ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ جائیں گے ۔یہ سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ رو پڑے اور ارشادفرمایا: مجھے موت سے کوئی گھبراہٹ نہیں ہے لیکن تم نے میرے بھائیوں کا نام لے کر مجھے ان کی یاد تازہ کرادی ہے جو اپنے اعمال صالحہ کا سارا اجر و ثواب ساتھ لے کر آگے چلے گئے اورمجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو مال ودولت ہمیں دنیا میں عطاکردی ہے کہیں وہ ہمارے ان اعمال کا بدلہ نہ ہوجن کا تم تذکرہ کررہے ہو۔(ابونعیم ، ابن سعد )
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024