ملک بھر میں کاروبار کی صرف ایک ہی صورت رہ گئی ہے کہ زرعی زمین کو رہائشی اور کمرشل پلاٹوں میں ڈھال لیا جائے۔ پھر انہیں نقد یا آسان قسطوں میں فروخت کر لیا جائے ۔ ان پلاٹوں میں انڈسٹریل پلاٹ شامل نہیں۔ ہم انڈسٹریل پلاٹ بنانے کے بکھیڑے میں نہیں پڑتے ۔ بلکہ اچھی بھلی دھواں اگلتی فیکٹریوں کو پلازوں اور میرج ہالوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا ملک پوری طرح سول اور غیر سول دونوں طرح کے ٹائون ڈویلپروں کے قبضے میں ہے۔ ان کی طاقت کا اندازہ لگائیں ۔ ایک ٹائون ڈویلپر کے تصفیہ کی برطانیہ سے 119ملین پائونڈ کی رقم پاکستان لائی جاتی ہے۔ وہ بھی حکومتی خزانہ میں جمع کروانے کی بجائے اس ٹائون ڈویلپر کا سپریم کورٹ میں جرمانہ ادا کر دیا جاتا ہے ۔ اس کے بیان کے مطابق ایک برس کی انکوائری کے بعدبرطانوی تفتیشی ادارے این سی اے نے مجھے بے گناہ قرار دیا ہے ۔ حالانکہ رپورٹ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں۔ ہماری ساری خرابی یہ ہے کہ ہماری مارکیٹ میں ساری کاروباری ریل پیل دونمبر سرمایہ کے دم سے ہے ۔ جو کاروبار حلال پیسوں سے چل رہے تھے وہ اب بھی چل رہے ہیں ۔ لیکن دو نمبر پیسوں سے چلنے والے کاروبار رک گئے ہیں۔ پکڑ دھکڑ کے باعث لوگوں نے سارا سرمایہ نکال لیا ہے ۔ رئیل اسٹیٹ کا سارا کاروبار دو نمبر کے پیسوں سے چل رہا تھا۔ یہ کاروبار آجکل بالکل جمود کا شکار ہے ۔ اب یہاں دو آپشن ہیں۔ عمران خان اپنی اس سوچ کوکہ میں کرپشن کا خاتمہ کرونگا، دفن کر دیںاور اسی نظام کو چلنے دیں۔ اس طرح کاروبار پھر سے چلتا نظر آئیگا۔دوسرا آپشن یہ ہے کہ انہیں آج اصلاح احوال کیلئے کچھ بڑے اور تلخ فیصلے کرنے پڑیں گے ۔ برسوں پہلے پاکستان کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے کہا تھا کہ ملکی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے سارا روپیہ انڈسٹری میں لیجایا جائے ۔ ایک اخبار نویس نے پوچھا کیا ایسا ممکن ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ۔ ہاں !یہ بالکل ممکن ہے ۔اس کیلئے محض چند اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسطرح سارا روپیہ انڈسٹری میں واپس چلا جائیگا۔ان اقدامات میں پہلا اقدام وہ یہ بتاتے تھے کہ زمین، جائیداد کی فروخت کیلئے مختار نامہ عام کی مدت چند ہفتوں تک محدود کر دی جائے ۔دوسرا اقدام ، رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کا اوپن فائل سسٹم ختم کر دیاجائے ۔ تیسری ، رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی تعمیر کی مدت پر سخت سے عمل کیا جائے ۔ بصورت دیگر ملکیت کے حقوق منسوخ کر دیئے جائیں۔اس سلسلے میں بھاری جرمانہ بھی مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے اس طرح کے چند اور اقدامات بتائے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ ٹائون ڈویلپرز ہماری سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ پر حاوی ہیں۔ وہ اپنے کاروباری مفادات کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہونے دیں گے ۔ پچھلے دنوں ہماری کیبنٹ میٹنگ میں سبزیوں ، دالوں اور پھلوں کی مہنگائی بھی زیر بحث آئی ہے۔اس امر پر غور و خوض کیا گیا کہ اس پر کنٹرول ضروری ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا صرف سبزیوں ،دالوں اور پھلوںکی قیمتوں پر ہی کنٹرول ضروری ہے ؟ کیا انسانی زندگی میں چند مرلوں کا ایک رہائشی پلاٹ بھی گندم کے دانے جتنا ہی اہم نہیں ؟
اگر نفع کیلئے گندم کی ذخیرہ اندوزی حرام ہے تو رہائشی پلاٹوں کی حلال کیسے؟ کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ 3 مرلہ رہائشی پلاٹ کی کم از کم قیمت پندرہ لاکھ روپے ہے ۔ یہ 15 ہزار ماہوار تنخواہ پانے والے غریب آدمی کی 8 سال 4 ماہ کی تنخواہوں کے برابر ہے ۔ اب کیا یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پندرہ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے کچھ بھی نہیں بچا سکتے۔ پنجابی زبان کے محاورے میں ان کی اس آمدن سے پہلے ہی پوری نہیں پڑتی۔ آج سے لگ بھگ پندرہ برس پہلے ’نوائے وقت‘ کے ملتان دفتر کی افتتاحی تقریب میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ نے قوم کو خبردار کیا تھا کہ جس طرح زمین کو مڈل کلاس طبقے کے پائوں کے نیچے سے سرکایا جا رہا ہے اسطرح ملک تیزی سے خونی انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ عمران خان نے بے گھروں کیلئے چھت فراہم کرنے کیلئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا بہت دلفریب اعلان کیا تھا۔لیکن ملتان میں گھروں کی بجائے اپارٹمنٹ کی فراہمی کے حوالے اور پھر ان کی قیمتوں اور اقساط نے یار لوگوں کا سارا مزہ کرکرا کر دیا ہے ۔ ملتان میں 250اپارٹمنٹس تعمیر کئے جائیں گے ۔ صرف پچیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والے گھر انے ہی اپارٹمنٹ کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ درخواست دہندہ کیلئے یہ شرط ذہن میں رکھیں۔ دو مرلہ رقبہ پر چار اپارٹمنٹ بنائے جائیں گے۔ ایک اپارٹمنٹ کی قیمت 29,25,000/-روپے مقرر کی گئی ہے ۔اب یہ لطیفہ نہیں کہ اس پر ہنسا جائے ۔ اس اپارٹمنٹ کی ماہوار قسط 67ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ۔ اسطرح 36قسطوں میں کل قیمت کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی ۔ یہ اپارٹمنٹ بن جائیںگے ۔ متعلقہ وزیر میاں محمود الرشید مبارک سلامت کے مستحق ٹھہریں گے ۔ حکومت پاکستان کی ضمانت پر تعمیراتی ٹھیکیداروں کو بینکوں سے ادائیگی بھی ہو جائیگی۔ صرف انہی لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوگا جن سے پہلے ہی اپنی دولت نہیں سنبھالی جا رہی ۔ رہے بے چارے بے گھر غریب ، وہ اس موقعہ پر عمران خان سے اس کے سوااور کیا کہہ سکتے ہیں۔’ مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا‘۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024