پیر ‘ 11 ؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 9 ؍ دسمبر 2019ء
اسحاق ڈار کی صحت میں بہتری آتی ہے: بیٹا علی ڈار
صرف یہی نہیں اب اسحاق ڈار ٹویٹر پر بھی دوبارہ ایکٹو ہو گئے ہیں۔ اس بھی انداز ہوتا ہے کہ اب ان کی صحت کافی اچھی ہو گئی ہے۔ ویسے بھی جب آرام اور علاج بیرون ملک وہ بھی لندن جیسے مہنگے شہر میں دستیاب ہو تو کون سا مرض ہے جو دور نہیں ہوتا۔ اب علی ڈار کہتے ہیں کہ ان کے والد کے بازو کی حالت بہتر ہے۔ گرون کا درد بھی چند ہفتوں یا دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔ انہیں والد کی صحت یابی مبارک ہو۔ دعا ہے وہ جلد صحت یاب ہوں اور اپنے مخالفین کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دیں اور جھو ٹے سچے کیسوں کا سامنا کر کے اپنے کو سرخرو کریں۔ ان کے چاہنے والے بڑی شدت سے ان کی وطن واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ سابق کمانڈو مشرف کی بھی غیرت ناہید جاگ پڑے ا ور وہ بھی ایک بار پھر مُکے لہراتے ہوئے مخالفین کی نیندیں اڑاتے ہوئے وطن واپسی کی راہ لیں اور عدالتوں کے سامنے جم کر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کریں۔ اب تو انہیں حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے ان کے خلاف کیسوں کا دفاع حکومت اپنے خرچے پر کر رہی ہے تو ڈر کا ہے کا ویسے اگر حکومت اسحاق ڈار کے کیسوں میں ان کی معاونت کرنے کا اعلان کرے تو شاید ڈار جی اگلی فلائٹ سے وطن واپسی کا سوچ سکتے ہیں۔ اچھا تو یہ ہے کہ دونوں اکٹھے آ کر خود کو مرد میدان ثابت کریں۔ چاہے لوگ ’’چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا‘‘ کی پھبتی ہی کیوں نہ کسیں۔
٭٭٭٭٭٭
روس کا پاکستان کی معیشت کی
بہتری میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ
روس کا یہ فیصلہ سر آنکھوں پر۔ اب حقیقت میں سرد جنگ کا خواب ایک بھولی بسری کہانی بن چکا ہے۔ روس اور پاکستان نزدیک پڑوسی ہیں۔ اگر چین کی طرح روس بھی پاکستان کی طرف ہمالیہ سے بلند سمندر سے گہری شہد سے میٹھی دوستی کے رابطے بڑھائے تو پاکستان بھی نہایت گرمجوشی سے اس کا جواب پرخلوص دوستی کی شکل میں دے سکتا ہے۔ بڑی مدت کے بعد آہستہ آہستہ ہی سہی مگر ماضی کے گھائو مندمل ہو چکے ہیں۔ پاک روس دوستی بھی مستحکم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بھارت کے مکمل طور پر امریکہ کے گود میں چلے جانے کے بعد اب ہمارے راہ رسم ، مراسم میں بدل رہے ہیں ایسے میں اگر روس پاکستانی معیشت کے استحکام اور بہتری کیلئے قدم بڑھاتا ہے تو ’’جی آیاں نوں‘‘ پاکستان سٹیل ملز پاک روس دوستی کی ایک زندہ علامت اور سنہری مثال ہے۔ وہ اس وقت اپنوں کی مہربانیوں کی بدولت دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ روس اس کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے تو یہ پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس طرح صنعتی زون اور اسلحہ سازی کے میدان میں کمیونٹی اور زرعی ڈویلپنگ میں بھی روس کے تجربے اور امداد سے انقلابی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ ہاں اگر روس کو ہم کالا باغ ڈیم بنانے کا ٹھیکہ بھی د ے دیں تو سونے پر سہاگہ ہو گا۔ بہترین کام بھی جلد مکمل ہو گا اور وہ ماضی کے سُرخے جو اس کے خلاف ہیں اپنے سابقہ مربی کے احسانات کی وجہ سے اس کی مخالفت بھی نہیں کریں گے کیوں جناب یہ آئیڈیا برا تو نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
کراچی آرٹس کونسل میں بارہویں عالمی اردو کانفرنس
کراچی آرٹس کونسل والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے تسلسل کے ساتھ عالمی اُردو کانفرنس کا سلسلہ برقرار رکھا ہے۔ ایسی تقریبات کسی بھی معاشرے کے گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کی مانند ہوتی ہیں۔ آج کل تو ہر جگہ معاشرہ انارکی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ عدم برداشت نے ماحول میں تنائو پیدا کیا ہوا ہے۔ ایسے میں اردو کانفرنس حقیقت میں اردو بولنے والوں اردو سے پیار کرنے والوں کیلئے ایک تحفہ خاص ہے۔ کراچی میں دنیا بھر سے اردو کے ماہرین ، مبلغین ، فلاسفر ، ادباء شعرا، ناقدین جن میں جاپان، چین، برطانیہ، کینیڈا سے خاص طور پر آئے اردو بولنے والے مہمان جس طرح جمع ہوئے۔ انہوں نے وہاں اس زبان کی مٹھاس اور ہمہ گیری کا وہ چمن مہکایا جس کی معطر فضا نے تمام شرکا کے من موہ لیے۔ یہاں صرف گنگا جمنی اردو ہی نہیں دلی۔ لکھنئو اور اودھ کے لب و لہجے بھی سنائی دئیے۔ پانچ دریائوں کے درمیان یعنی پنجاب سے لے کر دریائے سندھ کے کنارے آباد کراچی کے علاوہ۔ بلوچستان اور خیبر پی کے میں بولی جانے والی اردو کا جمال کمال لطافت نزاکت کے ساتھ مقامی لہجے کی گھن گرج اور نرماہٹ بھی سننے کو ملی۔ اس کانفرنس میں منعقد مشاعرے ، مباحثے، ادبی مذاکرے اور محافل موسیقی و غزل سرائی کے ساتھ مقامی رنگ نے بھی جو جلوے بکھیرے وہ قابل ستائش ہے۔ دعا ہے اردو کانفرنس کی یہ عالمی محفل کراچی کے ساتھ بھی لاہور اور اسلام آباد میں بھی رنگ بکھیرے۔ امن اور محبت کے پیغام کو اپنی قومی زبان سے محبت کو عام کرے۔
٭٭٭٭٭٭
سعودی عرب سے اختلافات میں کمی
ہوئی ہے: قطری وزیر خارجہ
بڑے عرصہ بعد مسلم ممالک کی طرف سے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ ورنہ اختلافات کے اس جھلسا دینے والی لو نے تو بہت سے چہرے سنولادئیے تھے۔ کیسے کیسے خوبصورت ایک زبان ایک مذہب ایک علاقے میں آباد یہ عرب ممالک معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھ بیٹھے ہیں۔ اختلاف تو حسن ہوتا ہے۔ اسے بدصورتی بنانا کیا ضروری ہے۔ پوری دنیا میں کون سی جگہ ہے جہاں اختلاف نہ ہو مگر ہر جگہ
’’ان کے غم کو اے میرے دل غم ہستی نہ بنا‘‘
زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
والی بات پر عمل ہوتا ہے مگر ہمارے مسلم بھائی انا کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ نرم اور نرم خوہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ بھائی بھائی سے لڑیں تو دشمن خوش ہوتے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر میں کوئی کوہ ہمالیہ جتنے بلند اختلافات نہیں ہیں۔ آپس میں وسیع قلبی سے ہر مسئلے کا حل نکل آتا ہے۔ اب اگر برف پگھلنے لگی ہے تو اسے رائیگاں جانے نہ دیں دونوں ممالک دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہیں جہاں تیل اور گیس کے زمزمے پھوٹتے ہیں۔ خوشیاں آسائشیں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔ خطے کیلئے مسلم امہ کے امن سکون ترقی اور خوشحالی کیلئے سب سے بڑھ کر اپنے مسلم عوام کیلئے اگر یہ دونوں ملک باہمی شیر و شکر ہو جائیں تو خلیج میں بڑھتی حدت کم ہو جائے گی۔ سعودی عرب بڑا اسلامی ملک ہے وہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے بازو وا کرے تو قطریوں کو چھوٹے بھائیوں کی طرح اس کے سینے سے لگنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭