حکومت روپے کو استحکام دینے کیلئے جو کوششیں کر رہی ہیں ، ان میں پرائیویٹ بنکوں سے قرض لے کر اور زائد کرنسی چھاپ کر کھلی مارکیٹ سے ڈالر خریدنا شامل ہے۔ مگر بھاری بجٹ خسارے اور 12.93 فیصد افراطِ زر کی شرح کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں۔ خدشہ ہے کہ موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر جب تک ہم حقیقی جارحانہ اقدامات نہیں کریں گے۔ امریکہ پاکستان کو چند نامعقول وجوہات کی بناء پر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکلنے دے گا۔ ان نامعقول وجوہات میں ٹیررسٹ فنانسنگ اور منی لانڈرنگ بھی شامل ہے؟ میں یہاں درپیش بحران کے بارے میں بعض زمینی حقائق کو زیر بحث لا رہا ہوں۔ ازراہ کرم دیکھ لیجئے کہ قابو سے باہر ہوتی ہوئی بدترین اقتصادی صورتحال ہمارے عوام اور قومی معاشی نمو کو متاثر کر رہی ہے۔
جب قومیں سنگین قومی ایشوز بارے خود انکاری اختیار کر لیتی ہیں تو معاشرہ تقریباً تمام داخلی اور خارجی امور پر پولرائزڈ ہونے لگتا ہے۔ ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ قوم کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں تیزی سے عدم استحکام سے دوچار ہوتی ہوئی اکانومی بھی شامل ہے۔ حالیہ مہنگائی نے عام آدمی کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ خصوصاً اس صورت میں کہ افراطِ زر کی انتہائی باعث تشویش شرح 12.93 فیصد ہو، اور ایسے اشارات مل رہے ہیں کہ ابھی قیمتیں مزید بڑھیں گے اور مہنگائی کی آفت آئے گی، لیکن لوئر مڈل کلاس اور غریب کی آمدنی کی سطح جوں کی توں رہے گی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اشرافیہ کے مقابلے میں غریب طبقہ کی ضروریات میں بڑا فرق ہے لیکن مہنگائی کی دن دونی رات چوگنی بڑھتی ہوئی شرح نے معاشرے میں عام آدمی اور سوسائٹی کے دیگر تمام طبقوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے سال رواں کے غربت کے تازہ ترین تخمینوں کے مطابق پاکستان کی 34 فیصد آبادی خطِ قومی غربت کے نیچے رہ رہی ہے۔ ان میں 31 فیصد کا تعلق دیہات اور 13 فیصد کا تعلق شہری علاقوں سے ہے۔ مزید برآں ہماری 39 فیصد آبادی کثیر الجہتی غربت انڈیکس کی روسے غریب ہے۔ ہمیں ایک ایسی صورتحال کی طرف دھکیلا جا رہا ہے کہ یہاں مڈل کلاس کو بھی غربت کے چنگل میں پھنسنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ سابقہ فاٹا کی تقریباً دو تہائی (73 فیصد) اور بلوچستان کی 71 فیصد آبادی کثیر الجہتی غربت سے دوچار ہے۔ خیبر پختونخوا میں غربت 49 فیصد، گلگت بلتستان اور سندھ 43 فیصد پنجاب 31 فیصد، آزاد کشمیر کی 25 فیصد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی صوبہ بھی بڑھتی ہوئی غربت سے پاک نہیں۔
کس قدر افسوسناک ہے کہ عالمی تقابلی رپورٹ 2019ء کے مطابق پاکستان سابقہ حکومت کے 107 ویں مقام سے گر کر 110 ویں تک پہنچ گیا ہے۔ پچھلی حکومت کے مقابلے میں تین درجے نیچے آنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو کئی مزید سماجی و اقتصادی ایشوز پریشان کریں گے۔ ملک سے غربت کے خاتمے کی بجائے غریب خاندان بچوں کو چائلڈ لیبر میں بھیجنے پر مجبور ہیں جو کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، معاشی مجبوریوں کے باعث یہ بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ حکومت کو اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے اور چائلڈ سپورٹ بلاتاخیر شروع کردینا چاہئے۔ ہم چائلڈ لیبر کے ایشو پر دُنیا میں پہلے ہی بہت بدنام ہیں تقریباً سوا کروڑ بچے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ اس صورتِ حال کا رُخ موڑنے کیلئے حکومت نے شائد ہی کوئی اقدام کیا ہو۔ یہ سب کچھ اقتصادی پسماندگی کے باعث ہو رہا ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے سنگین نوعیت کی طبقاتی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ یہ صورتحال طبقاتی کشمکش کا باعث بن رہی ہے۔ غریب اس سماجی ناانصافی کو دیکھ رہے ہیں اور غربت ہی جرائم کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ غریب مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق، جرائم کی دُنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ خود کشیوں کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ غربت کے ستائے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں تو کیا ہوتا ہے۔ احتجاجات سے بھی بڑھ کر نوبت بغاوت تک جا پہنچتی ہے۔ اس لیے حکومت کو فوراً عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کیلئے مناسب ریلیف پیکج لے آنا چاہئے۔
ملک کی 82ء فیصد دولت پر دولت مندوں کا قبضہ ہے۔ جس نے دولت کی تقسیم کو انتہائی غیر منصفانہ بنا دیا ہے۔ کل آبادی کا دس فیصد طبقہ انتہائی امیر ہے۔ وہ کل دولت کا 27.6 فیصد کما رہا ہے جبکہ 10 فیصد نچلا اور غریب طبقہ محض 4.1 فیصد کما رہا ہے۔ ہمارے ملک میں غیر ہنر مند کارکن بہ مشکل 15 سے ساڑھے 17 ہزار روپے مہینہ تک کما پاتے ہیں۔ اتنی حقیر پونجی میں ایک چھوٹے سے خاندان کیلئے پورا مہینہ گزارنا مشکل ہے۔ ہمارے ملک میں عام تصور پایا جاتا ہے کہ حکمران غریبوں کی بہبود پر کم وقت خرچ کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے لیے اور سیاسی بچائو پر زیادہ توجہ دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ غریبوں کے مسائل پر مطلوب توجہ نہیں دے پاتے۔ جب غربت اور غریب کے مسائل بڑھیں گے تو لازماً بے چینی پیدا ہو گی۔
نئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے مسائل کی سنگینی کا ادراک نہیں کیا یا انہیں درخوراعتنا نہیں سمجھا اور ووٹروں کو راغب کرنے کیلئے ایک سال کے اندر اندر غربت کے خاتمے کے وعدے کرتے رہے۔ حکومت نے خام اشیاء اور مواد پر 17 فیصد کے ٹیکس لگا دئیے۔ جس نے مینوفیکچرنگ صنعتوں کو متاثر کیا اور فیصل آباد جیسے شہر سنگین بحران سے دوچار ہیں۔ جہاں ایک لاکھ سے زائد کارکن بے روزگار ہو گئے ہیں۔ یہ صرف ایک شہر کی کہانی نہیں بلکہ تمام بڑے بڑے شہروں کو اسی پرابلم کا سامنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہماری برآمدات کم ہو کر رہ جائیں گی۔ پاکستان پہلے ہی گرے کلاتھ کی مارکیٹ سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ اس لیے کہ بہت سے غیر عاقلانہ اور فوری فیصلے کئے گئے جنہوں نے ملک بھر کی انڈسٹری کو متاثر کیا۔
حکومت نے صحت کے شعبے میں بھی بہت مایوس کیا۔ ملک بھر میں تقریباً 25 ہزار ڈینگی کیس رپورٹ ہوئے جن کی تفصیل اس طرح ہے ، 6 ہزار 537 کیسز اسلام آباد ،5 ہزار 642 پنجاب 4 ہزار 403 سدھ 4 ہزار 276 خیبر پختونخوا اور 2 ہزار 750 بلوچستان سے۔ جب کہ حکومت نے اس پر مجرمانہ چُپ سادھ رکھی ہے چونکہ حکام نے اس مسئلے کو مکمل نظرانداز کر رکھا ہے۔ اس لیے ماہرین کے مطابق یہ آئندہ برس مسئلہ دُگنی شدت اختیار کر لے گا۔ حکومت پر اس سوال کا جواب دینا لازم آتا ہے کہ اُس نے عوام کی صحت اور جانوں کو ڈینگی ایسے سنگین خطرے سے نبٹنے کیلئے بجٹ میں کتنی رقم رکھی ہے۔
رہا تعلیم کا شعبہ تو اس شعبے کی حالت سب سے بدتر ہے۔ کیونکہ تعلیم نے تجارت کی شکل اختیار کر لی ہے اور تعلیم کا معیار گر گیا ہے کہ کوئی چیک نہیں رہا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ ملک میں ناخواندہ لوگوں کی تعداد 58 فیصد ہے اور یہ بھی کون جانتا ہے کہ یہ اعداد و شمار صحیح ہیں یا من گھڑت۔ تعلیم کا شعبہ اس لیے بھی ابتر حالت میں ہے کہ حکومت نے شاید ہی اس طرف توجہ دی ہو، بجائے اس کے کہ حکومت تعلم مفت کر دیتی یا سبسیڈائز کرتی، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ تعلیمی مافیا کو تعلیم کے مقدس پیشے کے نام پر دولت جمع کرنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ حالانکہ تعلیم کا حصول ہر بچے اور طالب علم کا جو کہ پاکستان کا مستقبل ہے پیدائشی حق ہے مگر وہ نہایت مہنگی تعلیم خرید رہا ہے جبکہ مفت تعلیم کا حصول اس کا پیدائشی حق ہے۔ بعد تعلیم، روزگار/ کیرئیر مواقع ، ذہنی صلاحیتوں کو جلا دینے کا بنیادی ذریعہ ہیں اور طلبہ کو مشغول بھی رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں دسمبر 2019ء تک بے روزگاری کی شرح 6.140 فیصد ہو جائے گی۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024