آپ کے ہم عصروں کے بقول فن تراجم میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ آپ جہاں سرسید کی تعلیمی تحریک کے داعی تھے وہاں جمال الدین افغانی کے خیالات سے بھی بے حد متاثر تھے۔ ظفر علی خان مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے لہذا حیدر آباد میں میر عثمان علی خان کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ آپ حیدر آباد کو مستقبل میں ایک اسلامی ریاست کی شکل میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے مگر مکار انگریز بھانپ گیا اور آپ کے گرد سازشوں کا جال بچھا دیا نتیجہ حیدرآباد چھوڑ کر لاہور آگئے ۔ اپنی تصانیف ترجمہ اور صحافتی قابلیت کے باعث ہندوستان کے طول و عرض میں ایک خاص مقام حاصل کر چکے تھے لہذا والد مکرم کے جریدہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جو کہ زمینداروں کانمائندہ ہفت روزہ اخبار تھا ۔ آپ نے اس اخبار کونئی زندگی نئی جہدیں بخشیں ۔ ولولہ تازہ اور نئی روح پھونک دی ۔ کرم آباد سے لاہور او ر ہفت روزہ سے روزنامہ میں تبدیل کرلیا ۔ اب کیا تھا ایک جانب جنگ طرابلس دوسری جانب جنگ بلقان اور زمیندار اخبار جو تازہ ترین صورت حال کو عوام تک پہنچاتا علامہ کی نظم و نثر نے پورے ہندوستان میں ہنگامہ برپا کر دیا ۔ زمیندار دولت برطانیہ کے خلاف بغاوت کے علامت کے طور پر نظر آنے لگا لاہور سے لندن تک حکومت اور اس کے وفادار پریشان تھے ۔ لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہر مولانا کی شعلہ بیانی کے سبب آتش فشاں کی صورت اختیار کر گئے ۔ وہ طرابلس اور بلقان میں ہونے والے ظلم اخبار میں تحریر کرتے اورجلسوں میں بیان کرکے خود بھی روتے اور تمام مجمع کو رلاتے خود بھی تڑپتے اور دوسروں کو بھی تڑپاتے ۔ جلسوں میں مولانا محمد علی جوہر اور دوسرے مسلم رہنما بھی خطاب فرماتے ۔ لاہور میں منعقد ایک جلسے میں ظفر علی خان نے اقبال کو نظم پڑھنے کے لئے بلاتے ہوئے کہا کہ ہم نظم کہتے ہیں مگر ڈاکٹر اقبال کی اور ہی بات ہے۔ کبھی کبھار نظم کہتے ہیں جس میں جبرائیل کی پروازکا رنگ ہوتا ہے علامہ اقبال نے اس جلسے میں اپنی مشہور نظم فاطمہ بنت عبداللہ پڑھی ۔
جب مولانا ظفر علی خان استنبول سے ہوتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچے جہاں سلطان معظم سے ملاقات کی اور بلقان کے متاثرین کی امداد کے لئے خطیر رقم پیش کی یہاں سے آپ لندن آئے جہاں پریس ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا ۔آپ نے انگریزی زبان میں متاثر کن تقریریں کیں ۔ پرلیس ایکٹ کے خلاف ایک کتابچہ شائع کیا جو انگلش انشاء پردازی کا شاہکار ہے لندن سے دہلی پہنچنے پر تاریخی استقبال ہوا جو جلوس کی شکل اختیار کر گیا ۔ اس دور میں اس جلوس میں شامل افراد کی تعداد چار لاکھ بتائی جاتی ہے اس موقع پر مولانا الطاف حسین حالی نے ظفر علی خان کی شان میں ایک زبردست نظم پیش کی اور مولانا شبلی نعمانی نے آپ کی ملی خدمات دیکھتے ہوئے کہا کہ علیگڑھ کو محمد علی کی قابلیت اور ظفر علی خان کی جرات و شجاعت پر ہمیشہ فخر رہے گا ۔ آپ کی تقریر و تحریر کسی بھی زباںمیں ہو علم و ادب کا شاہکار ہوتی ۔ دشمن کے خلاف طبل جنگ سمجھی جاتی ایک چھوٹا سا اقتباس حاضر خدمت ہے مولانا ظفر علی خان نے فرمایا ۔
" آزادی کی جدو جہد میں نوجوانان ملک و ملت کو خاک و خون کے ہولناک طوفانوں سے گزر کر عروس آزادی سے ہمکنار ہونا پڑتا ہے زندہ قومیں جب کسی بات کا عزم کر لیتی ہیں تو گولیوں کی بوچھاڑ توپوں کی دنادن فوجوں کی یلغار ، جیل کی تنگ وتاریک کوٹھریاں اور تختہ دار اس کے پایہ استقلال کو ڈگمگا نہیں سکتے وہ ظلم و استبدار کی آندھیوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں وہ زنجیروں کی جھنکار سن کر رقص کرتے ہیں ۔ پھانسی کے رسے گلے میں ڈال کر زندگی کا منہ چڑاتے ہیں اور خوشی خوشی حیات ابدی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں وہ اپنی زندگی کو قوم وملک کی مقدس امانت سمجھتے ہیں وہ قوم و ملک کے عزت و وقار کی خاطر زندہ رہتے ہیں اور اسی کی خاطر اپنی زندگیوں کو نچھاور کر دیتے ہیں وہ خون کے طوفانوں سے گزر کر لاشوں کو روندتے ہوئے گولیوں سے کھیلتے ظلم و استبدار پر مسکراتے ، سینوں پر زخم پر زخم کھاتے ، منزل آزادی کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے ہیں "
حضرت مولانا ظفرعلی خان اسیری سے ذرا نہیں گھبراتے تھے شاید ہی ہندوستان کی کوئی جیل ہو جو مولانا کی مزاج شناس نہ ہو آپ کے خلوت میں بھی جلوت کا لطف حاصل کرتے آپ کی ان خوبیوں کے آپ کے بدترین دشمن بھی قائل اور مداح تھے ۔ تحر یک آزادی کے جانثار جانباز سپاہی کرنل(ر) سلیم ملک ۱۹۴۶ ء کے انتخابات کا احوال سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لاہور میں ہندئو بننیے کا غلبہ تھا اور مسلم لیگ کے پاس بظاہر کوئی ایسا امیدوار نہ تھا جو یہاں کانگرس کو شکست فاش دے سکے۔صورتحال کی سنگینی کے باعث مولانا ظفر علی خان کی آتش فشانی اور شعلہ بیانی جس کے سامنے کانگرس اور یونینسٹ راک کا ڈھیر دیکھائی دیئے۔ فتح لاہور کے بعد فاتح لاہور ظفر علی خان پورے بر صغیر میں جہاں جہاں گئے مسلم لیگی امیدوار کامیاب و کامران ہوتے چلے گئے بقول کرنل(ر) سلیم ملک۴۶ ۱۹ ء کے مسلم لیگ کی کامیابی کی خشت اول حضرت مولانا ظفر علی خان ثابت ہوئے۔ اللہ اس بطل جلیل کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام والا درجات سے نوازے اور اس کی قوم میں ظفر علی خان جیسے ولولوں جذبوں سے آراستہ نوجوان پیدا کرے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024