عالمی معاشی درجہ بندی کے ادارے موڈیز نے پاکستانی معیشت کو منفی سے ہٹا کر مستحکم کا درجہ د ے دیا ہے۔ موڈیز کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر اب بھی کم ہیں۔ وہ صرف دو ڈھائی ماہ تک اشیاء کی درآمدات کیلئے کافی ہیں۔ موڈیز مہنگائی چکی میں پسنے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا ترجمان نہیں نہ ہی اس کی رپورٹ کوئی صحیفۂ آسمانی ہے۔ معاشی استحکام کی نوید تو اس وقت ہو گی جب ضروریات زندگی عام شہری کو اس کی قوت خرید کے اندر ملیں گی۔ 13 فیصد سے زائد شرح سود پر کارخانے اور فیکٹریاں نہیں لگیں گی۔ کاش سرکاری افسروں کیلئے کارکردگی دکھائو یا گھر جائو کے فارمولے پر حرف بہ حرف عمل ہو جائے۔ اِدھر سے اُدھر کرنے سے ’’تبدیلی‘‘ نہیں آئے گی۔ تھانیدار بھائی سے گوالمنڈی آ جائے تو اس کا چال چلن عادات رشوت خوری تو اس کے ساتھ ساتھ رہتی ہے کیا سارے تبلیغی جماعت کے ساتھ چلنے والے حج اور عمرہ کرنے والے یکسر بدل جاتے ہیں۔ ہم ریاست مدینہ اور چینی ماڈل کی باتیں کرتے ہیں جابجا کچڑا اور کوڑے ڈھیر نہیں اٹھوا سکتے۔ گلیوں اور سڑکوں پر گڑھے کھڈے پُر نہیں کروا سکتے۔ بلدیاتی نظام سے کچھ بھی تو نہیں بدلا لوگوں کی چودھراہٹوں میں اضافہ ہوا۔ نئے بلدیاتی نظام میں یوتھ ممبرز کی نشست ختم کر دی گئی۔ نئی مقامی حکومتوں کے نظام میں پنچایت پھر سے قائم ہو گئی۔ مقامی حکومتوں میں سیاست، جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا فیصلہ ہوا ہے۔ 2019, 2015, 2013, 2001, 1979, 1959 میں بلدیاتی نظام میں تبدیلیاں لائی گئیں لیکن بدلا کچھ بھی نہیں! سیاستدان یہ ثابت کریں کہ ملک میں ایک مضبوط پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے اور اب تمام مسائل کا حل پارلیمان کے اندر سے ہی نکلے گا۔ سندھ میں متحدہ کی اہمیت کے باوجود تسلیوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ صوبے کے شہری علاقوں میں منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں کابینہ اور بیورو کریسی میں تبدیلی کا گرین سگنل دکھائی دے رہا ہے جبکہ بلوچستان سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ جنوبی پنجاب میں اب تک کوئی ٹیکس فری صنعتی زون نہیں بن سکا! صرف ڈیٹ سروسنگ پر ایک سہ ماہی میں 571.6 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ دفاعی اخراجات کو شامل کیا جائے تو یہ رقم 814 ارب روپے بنتی ہے۔ 1947ء سے 2008ء کے 61 سالہ عرصے میں ملک پر گورنر جنرلوں، نو صدور اور 23 وزرائے اعظم کی حکمرانی رہی۔ ان سب کے ادوار میں قرضوں کا مجموعی حجم چھ کھرب روپے تھا۔ 2008ء سے 2013ء تک کے 5 سال میں صدر آصف زرداری اور دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے حکمرانی کی۔ ان اصحاب نے قرضہ 6 کھرب سے اٹھا کر 16 کھرب روپے کر دیا۔ 61 سال میں ہر پاکستانی پر 36 ہزار روپے قرضے کا بوجھ تھا جسے جیالوں کے دور نے 88 ہزار روپے فی کس کر دیا۔ 2013ء سے 2018ء کے ن لیگی دور میں صدر ممنون حسین اور دو وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے دور حکمرانی میں قرضہ 16 کھرب سے بڑھ کر 30 کھرب روپے تک جا پہنچا۔ ن لیگی دور نے 14 کھرب اضافے سے جیالوں کو بھی پچھاڑ دیا۔ شریف دور میں ہر قرضہ بم کی صورت اختیار کر گیا۔
ملک میں ہائوسنگ سکیموں کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے سہانے اشتہارات کے ہاتھوں بیرون ملک پاکستانی کبوتر کی طرح بلی کے ہاتھ لگتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں بھی یہی لُٹ جاتے ہیں۔ نیب کے پاس فراڈ کرنیوالی ہائوسنگ سکیموں کے کیسوں کا انبار لگا ہے جس طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن سے غیر منظور شدہ چھوٹی موٹی یونیورسٹیوں کا جال ہے۔ اسی طرح ڈ ویلپمنٹ اتھارٹیز سے غیر منظور شدہ ہائوسنگ سکیموں کی بڑے پیمانے پر گروتھ ہوئی ہے۔
گندگی کے ڈھیر تجاوزات‘ فضائی کمپنی میں اربوں کی مبینہ کرپشن‘ گرانفروشی‘ فضائی آلودگی‘ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی 400 بسوں کا پہیہ رک گیا۔ 20 لاکھ مسافر خوار‘ پی ایچ اے سویا اور درخت اجڑ رہے ہیں۔ زہر آلود پانی سے فصلوں کی کاشت‘ ایل پی جی کی غیرقانونی ری فلنگ‘ گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار‘ ڈاکوئوں کی لوٹ مار‘ ٹماٹر‘ پیاز‘ آلو بھی دسترس سے باہر‘ الیکشن کمشن کے ناموں پر اختلاف‘ کل کا مختار کل حکمران مشرف رحم کی اپیل کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے شریک اقتدار آج بھی ارکان پارلیمان اور وزراء کی شکل میں جانے پہچانے ہیں۔ اب تک یہ طے نہیں ہو سکا محب وطن کون‘ جس کو جب چاہا کافر بنا دیا۔ دل کیسے جڑیں‘ یکجہتی کیسے آئے؟ منشیات‘ جرائم پیشہ افراد۔ یہ ہے منظر اسلامی جمہوریہ معاشرے کا۔ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 9 سال کی بلند ترین سطح پر یعنی 7.12 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ مہنگائی کی بے لگامی بے حد تشویشناک ہے۔ عمران خان کہہ کہہ کر تھک گئے کہ ہر صورت قیمتیں کنٹرول کی جائیں۔ نہ جانے مہنگائی کونسی ایسی خلائی مخلوق یا جن بھوت ہے جس کے سامنے انسان بے بس ہے۔ بیروزگاری بھی برق رفتاری سے بڑھتی جا رہی ہے۔ زندگی مشکل تر ہونے سے مزاج بھی تلخ ہو رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024