میںنے آج تک پورا پاکستان بھی نہیں دیکھا لیکن خوش قسمتی سے دسمبر چھیاسی میں مجھے پہلے بیرون ملک دورے کا موقع مل گیا۔ان دنوں میں نوائے وقت میں میگزین ایڈیٹر کے طور پر کام کررہا تھا۔ دفترکی طرف سے مجھے مطلع کیا گیا کہ ایشین پریس فائونڈیشن کی دعوت پر تین روز بعد آپ ملائیشیا جائیں گے جہاں ایک ماہ کی سائنس جرنلزم ورکشاپ میں مجھے شرکت کرنا تھی۔ موضوع اچھوتا تھا کیونکہ ہمارے اخبارات و جرائد میں سائنسی موضوعات پر بہت کم لکھا جاتا تھا اور جو لکھا بھی جاتا اس کی جناتی زبان کی وجہ سے قارئین اس سے استفادہ کرنے میں ناکام رہتے۔
تیاری کے لئے صرف تین دن۔ دسمبر کا مہینہ۔ کچھ معلوم نہ تھا کہ ویزہ کہاں سے لینا ہے۔میرے ساتھ ماہنامہ ہیرلڈ کی ایک خاتون ایڈیٹر محترمہ آمنے بھی جا رہی تھیں، میںنے سوچا کہ وہ کراچی میںمقیم ہیں۔ ایک انگریزی اخبار میں کام کر رہی ہیں، اس لئے کیوںنہ ان سے ملاقات کروں اور ضروری معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ مگر میری طرح وہ بھی سفر کی تفصیلات سے نابلد تھیں ،ا نہوںنے مجھے مشورہ دیا کہ کراچی میں ملائیشیا کے اعزای قونصلر سے مل کر وہاں کے ویزے اور موسم کے بارے میں تفصیلات حاصل کروں۔ میں ان قونصلرصاحب سے ملا۔ ایک بوسیدہ سے کمرے میں جو آڑھت زیاہ لگتی تھی۔ وہاں وہ ایک ٹوٹی پھوٹی کرسی پر براجمان تھے۔ عمر رسیدہ ۔ انہوںنے صرف اتنا کہا کہ آپ جہاز میں سوار ہو جائیں ، ویزہ آپ کوکوالالمپور ایئر پورٹ پر ملے گا ۔ مگرانہوںنے بھی موسم کا حال بتانے سے معذرت کی۔ چنانچہ اپنی عقل سے کام، لیتے ہوئے میںنے گرم، ترین ملبوسات سے اپنا ٹرنک بھر لیا۔ کراچی سے کوالالمپور تک نان اسٹاپ پرواز نے رات کے اندھیرے میں ہمیں ایئر پورٹ پر اتارا۔ جہاز جب بلندی کم کر رہا تھا تو پائلٹ کی آوا زگونجی کہ اگر کسی مسافر کے سامان سے منشیات بر آمد ہوئی تواسے موت کی سزا ہو سکتی ہے۔بہت خوف محسوس ہوا کہ کہیں میں ہی نہ دھر لیا جائوں، پولیس چاہے تو سامان سے کچھ بھی برآمد کر سکتی ہے اور پاکستانی مسافر تو دنیا بھر میں ویسے ہی بد نام ہیں ۔
میراا ورا ٓمنے کا خیال تھا کہ ہم ایک بین الا قوامی نوعیت کی ورکشاپ میں شرکت کے لئے آئے ہیں تو ایئر پورٹ پر لازمی طور پر میزبانوں کی طرف سے کوئی ویلکم ڈیسک ہمارا ستقبال کرنے کے لئے موجود ہو گا۔ اور ہمیں لیمو زین میں بٹھا کر کسی فائیو اسٹار ہوٹل پہنچا دے گا۔ ہم نے چاروں طرف دیکھا۔کہیں ایسا استقبالیہ ڈیسک نظر نہ آیا تو آمنے نے ایک ٹیکسی والے کو وہ ایڈریس دکھایا جہاں ہمیں پہنچنا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیو نے سر ہلا کر کہا کہ وہ ہمیں منزل پر پہنچا دے گا مگر اس کے لئے کوئی گھنٹے بھر کی ڈرائیو کرنا پڑے گی کیونکہ منزل مقصود کوالالمپور سے باہر ایک دوسری ریاست میں ہے۔ ایسی ان ہونیاں غیر ملکی سفر کا حصہ ہوتی ہیں۔ ہمیں مارا انسٹی ٹیوٹ آف جرنلزم پہنچنا تھا مگر رات کی تاریکی کے باعث ٹیکسی ڈرائیور بھی اس انسٹی ٹیوٹ کا گیٹ تلاش کرنے میںناکام رہا۔ بہر حال کسی طور ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ ہمیں جس ہوسٹل میں ٹھہرایا گیا تھا،ا سے دیکھ کر میرے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ سوچاتو یہ تھا کہ کوئی شاندار ہوٹل ہو گا مگر یہ تو کوئی ٹوٹا پھوٹا کمرہ تھا۔ موسم انتہائی گرم اور کمرے کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی نظام نہ تھا۔ آخر شب طوفانی بارش کی وجہ سے موسم کے تیور کچھ کچھ بدل گئے۔ اور رات کا باقی حصہ خراٹے مارتے گزار لیا۔ صبح دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ناشتے کے کمرے کی نشاندہی کی اور تیار ہو کرٹھیک نو بجے ایک بڑے ہال میں پہنچنے کی تاکید کی۔ میں نے ناشتے کی میز پر مختلف ڈشوں میںجھانک کر دیکھا۔ کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا پکا ہے۔ ناچار موٹے چاول ایک پلیٹ میں ڈالے۔ کچھ دوددھ اور چینی مکس کی اور اسے گلے سے اتارنے کی کوشش کی، یہ میکسیکن چاول تھے جنہیں پاکستان میں جانور بھی نہیں کھاتے۔ بہر حال اب یہ میرے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھے۔ کمرے میں گیا۔ تھری پیس سوٹ پہنا اور مگر احساس ہوا کہ نہ تو سانس آرہا ہے بلکہ اگر اسے زیادہ دیر پہنے رکھا تو جسم کی چربی بھی پگھل جائے گی۔ اب جو ورکشاپ میں شمولیت اختیارکی تو باہمی تعارف کا سلسلہ چل نکلا۔ پاکستان ۔ بھارت، انڈونیشیا۔ بنگلہ دیش ،فجی اور فلپائن کے صحافی اس میں شریک تھے۔یہ صحیح معنوں میں ایک کثیر القومی گروپ تھا۔ مگر ہمیں لیکچردینے کے لئے ایک ایک فلپائینی ادھیڑ عمر کی خاتون کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔انہوںنے خالص کتابی لیکچر دیئے جو سر کے اوپرسے گزر گئے۔ اسی شام میںنے ایک قریبی دکان سے ہلکی پھلکی پتلون اور ٹی شرٹ خریدی۔ اس کے بعد اپنے ساتھ لائے گرم کپڑوںکا ٹرنک کھولا تک نہیںکیونکہ موسم گرم مرطوب تھا۔ ہمارے اگست کے اواخر والا۔پسینے چھوٹ چھوٹ جاتے تھے۔ مگر وقفے وقفے سے بارش بھی ہو جاتی جس سے دن گزرتے رہے۔ گروپ کے ارکان جلد ہی آپس میں گھل مل گئے،۔ انڈیا کی دو خواتین سے ایسی قربت ہوئی جیسے ہم مغلیہ دور کے شہری ہوں۔ بنگلہ دیشی صاحب وہاں کے پریس انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ تھے ا ور اس عہدے پر فائز ہونے سے قبل ایک پیشہ ور صحافی رہے۔ میںنے ان سے اکہتر کے حالات پر بات کرنا چاہی ، انہوںنے کانوں کو ہاتھ لگایا ا ور کہا کہ صدیق سالک نے ان کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دی تھی اور وہ کئی ماہ تک زیر زمین چلے گئے۔ ملائیشیا کی ایک نوجوان بلکہ انتہائی کم عمر خاتون لیکچرار سے میں نے مقامی سیاست پر بات چھیڑی تو اس نے ہونٹ بند رکھنے کا اشارہ کیا۔ میںنے کہا کہ باقی دوستوں سے کچھ دور چلے جاتے ہیں ، مگر آپ کچھ تو یہاں کی سیاست پر بات کریں، وہ بے چاری اتنا کہہ سکی کہ مہاتیر محمد نے سخت قسم کا سنسر نافذ کر رکھا ہے ا ور صحیح معنوں میں یہاں کی دیواروں کے بھی کان کام کرتے ہیں اور مہاتیر کی حکومت تک سب کچھ پہنچ جاتا ہے۔ ہر شخص دوسرے کا جاسوس ہے ۔ پہلا جمعہ آیا تو میں نے انسٹی ٹیوٹ کی مسجد کا رخ کیا۔ دروازے پر مجھے ایک سائیکلو سٹال کاغذ تھما دیا گیا۔ پتہ چلا کہ ملائیشیا کی ہر مسجد میں حکومت کی طرف سے لکھا لکھایا خطبہ فراہم کیا جاتا ہے جسے خطیب صاحب طوطے کی طرح پڑھ ڈالتے ہیں البتہ عربی خطبہ وہی ہے جو دنیا بھر میں رائج ہے۔اس ورکشاپ کے لیکچرز نے میری معلومات میںکوئی اضافہ نہیں کیا مگر ہمیں بعض اداروں میں لے جایا گیا جہاں سے میںنے بہت کچھ سیکھا ۔ ہم ملائیشیا کے جوہری پلانٹ دیکھنے گئے۔ اخبارات کے دفاتر کا دورہ کیا۔ ٹی وی بھی دیکھا۔ایک حسینہ ہمیں دیکھ کر شرما سی گئی ۔ وہ ایک شہرت یافتہ ٹی وی اداکارہ تھیں، مگر وہ ہمارے ساتھ بات چیت سے انکاری ہو گئیں ۔ میں سمجھ گیا کہ یہ حکومتی سنسر شپ ہے جس کی و جہ سے ہر شخص اپنی زبان بند رکھنے پر مجبور ہے۔ دنیا میں مہاتیر کو ترقی ا ور خوش حالی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر جس ترقی میں زبان اور قلم پر پہرے ہوں۔ ایسی ترقی سے انسان صرف حیوان ہی رہتا ہے۔مگر بے حد خوش حال۔ جانوروں کی طرح انسانوںکو قانون کی چھڑی سے ہانکا جاتا ہے۔ ایک میٹنگ میں ہم لوگوںنے اپنے طور پر شرکت کی ۔ ہم نے اخبار میں پڑھا کہ ایک ہوٹل میں ڈاکٹر عبدالسلام لیکچر دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی مقبولیت کی پہلی نشانی تو یہ تھی کہ ہمارے گروپ کے آدھے سے زیادہ لوگوںنے ان کی میٹنگ میں شرکت کی۔ ان میں دونوں بھارتی خواتین بھی شامل تھیں۔ اور میں فجی کے ہندو صحافی ستندرا شاندل کا یہ تبصرہ کبھی نہ بھول پائوں گا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے بحرا لکاہل میں ہزروں میل دور ان کے ملک فجی کو بھی بھارتی استعمار سے محفوظ بنا دیا ہے۔فجی کے ایک ہندو صحافی کا پاکستان کو ہدیہ تبریک میرے لئے اعزاز کا باعث تھا اور رہے گا۔
میں یہاں محترمہ آمنے کا ذکر پھر کروں گا۔ وجہ یہ ہے اس نے صحافت چھوڑ کر آغا خان فائونڈیشن کی رضا کار کے طور پر شمالی علاقوں میں خدمات انجام دینا شروع کردیں جہاں وہ کینسر کے مہلک مرض کا شکار ہوئیں اوربھر پور جوانی میں دنیا چھوڑ گئیں۔مجھے محترمہ آمنے ہمیشہ یاد آتی رہیںگی۔ صحافی کے طور پر ان کی لیاقت ا ور صلاحیت اپنی جگہ مگر انسان دوستی میں انہوںنے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔میں ان کی روح کو سلام پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024