پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہار گئی۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن پیشہ وارانہ بنیادوں پر کھیلے جانیوالے کھیلوں میں ناکامیوں پر تفتیش بھی ہوتی ہے۔ ناکامی کی وجوہات کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے کہیں تو لوگ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود ہی الگ ہو جاتے ہیں ہمارے ہاں ایسا رجحان نہیں ہے۔ ہم غلطیوں سے سبق بھی کم ہی سیکھتے ہیں ہمیں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کا فن آتا ہے اور اسمیں ہم بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اچھی کارکردگی پر انعامات سمیٹنے کا سلیقہ بھی خوب جانتے ہیں ٹیم جیت جائے تو پکڑ پکڑ کر اپنے پسندیدہ افراد کا نام فہرست میں شامل کرواتے ہیں۔ ہارنے پر بات ہو تو کہا جاتا ہے کہ انکا تو کام ہی بولنا ہے بولتے رہتے ہیں اڑاتے رہتے ہیں، انہیں کیا پتہ کرکٹ کیا ہوتی ہے یہ صرف بولنا اور لکھنا جانتے ہیں۔ لیکن جنہیں کرکٹ آتی ہے، کرکٹ ایڈ منسٹریشن آتی ہے وہ بتا دیں کہ ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون پر آنے والی ٹیم اچھا کھیلتے کھیلتے ساتوین نمبر پر آئی ہے یا خود ہی تھوڑے عرصے میں ایک پوزیشن پر بیٹھے نیچے سرک جاتی ہے یا پیچھے سے آنیوالے ہارن دیتے ہیں اور یہ انہیں راستہ دے دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے ہم مسلسل برا کھیل کر اور ہار کر پہلے سے ساتویں نمبر پر آئے ہیں۔ ابھی ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر کا فون آیا کہنے لگے آپ نے سنا ہے مکی آرتھر میچ کے بعد کیا فرما رہے تھے ہم نے جواب دیا آپ بتائیں کہنے لگے ہیڈ کوچ کہہ رہے تھے کہ ہماری ٹیل ناکام ہو گئی ہے اور جنوبی افریقہ میں زیادہ مسئلہ نہیں ہو گا ہمیں لو باونس وکٹوں پر مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ کہنے لگے انہیں بتائیں آپکا کپتان ساتویں نمبر پر آتا ہے اور کیا نویں دسویں نمبر پر آنیوالے میچز جتوایا کرتے ہیں یہ ذمہ داری سپیشلسٹ بلے بازوں کی ہوتی ہے۔ بیٹنگ لائن ناکام ہوئی ہے تو مکی آرتھر کا اپنے بارے کیا خیال ہے ٹیم کی ناکامی کا مطلب کوچنگ سٹاف بھی ناکام ہے۔
ساتھ ہی سلیکشن کمیٹی نے دورہ جنوبی افریقہ کے لیے ٹیم کا اعلان کیا ہے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اپنا سر بچانے کے لیے ان فٹ پلیئرز کو بھی سکواڈ میں شامل کر لیا گیا ہے۔بچ گئے اور چل گئے تو گردنیں بچ جائیں گی۔جس کو ٹیم میں رکھنا ہو اسے ان فٹ بھی رکھ لیا جاتا ہے اور جسے باہر نکالنا ہو اسے بیرون ملک سے ان فٹ کا سرٹیفکیٹ تھما کر وطن واپس بھجوا دیا جاتا ہے۔ جسے ٹیم میں رکھنا ہو اسے خراب کارکردگی کے باوجود بھی رکھ لیا جاتا ہے اور جسے نہ رکھنا ہو اسے ڈومیسٹک کرکٹ کی خراب کارکردگی کا عذر پیش کر کے باہر کر دیا جاتا ہے۔ فٹنس اور سلیکشن کا معیار ہر کھلاڑی کے لیے مختلف ہی معلوم ہوتا ہے۔ عابد علی نے سینکڑوں رنز کر دیے وہ پسند نہیں آیا عثمان صلاح الدین کئی برس سے ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کرتا آ رہا ہے اسے شامل نہیں کیا جاتا جو اپنے ہیں انہیں باہر نہیں ہونے دیا جاتا اور جو اپنے نہیں ہیں انکے لیے اندر آنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا جاتا۔ کیا عابد علی نے بھارتی سلیکٹرز کو متاثر کرنے کے لیے رنز کیے ہیں۔ کیا عثمان صلاح الدین نے ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کرکٹ آسٹریلیا کے سلیکٹرز کو متاثر کرنے کے لیے تھے۔ کیا یہ پاکستان کی ٹیم ہے یا کسی کی ذاتی ٹیم ہے۔ٹیم تو پاکستان کی ہے فیصلے بتاتے ہیں کہ اس پر شخصیات کا اثر وطن سے گہرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بااثر افراد کے فیصلوں کے سامنے سب سر جھکائے باادب رہتے ہیں۔کوئی گرانٹ فلاور کا بھی پتہ کرے موصوف برسوں سے ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں وہ کس کی کوچنگ کر رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ناکامی خطرے کی گھنٹی اور جنوبی افریقہ کے لیے ٹیم کا انتخاب یہ ثابت کرتا ہے کہ فیصلہ سازوں نے گھنٹیوں کا اثر لینا چھوڑ دیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024