اسامہ شہید … نوجوان رول ماڈل (1)
7دسمبر 2016ئ کی شام جب چترال سے اسلام آباد کیلئے پرواز کرنے والا جہاز حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہو ا تو اس قومی سانحہ کے ساتھ ہی ہم پر اور ہمارے خاندان پر قیامت صغریٰ گزر گئی ۔ اسی جہاز میں میرا پیار بھانجا ، سب کا لاڈلہ ، سب کی آنکھوں کا تارا اسامہ اپنی بیگم اور گیارہ ماہ کی ننھی اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ اسلام آباد آرہا تھا اور اسلام آباد گھر میں اس کی امی اور میری پیاری بہن بڑے چائو سے اس کا پسندیدہ کھانا بنا کر اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی ۔مگر کیا پتہ تھا کہ اب وہ کبھی نہ آئے گا اور اپنے گھرانے کے اس راج دلارے اور چودھویں کے چاند سے ملنے کیلئے اب قیامت تک انتظار کرنا پڑے گا۔
تم ماہ شب چاردہم تھے میرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
اسامہ کے بچپن سے جوانی تک کے مختلف مراحل کے مناظر آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ بچپن سے ہی اسامہ غیر معمولی ذہانت اور بے پنا ہ معصومیت کا خوبصورت امتزاج تھا ۔ تو تلی زبان میں باتیں کرنے والا ننھا سا معصوم اور بہت ہی پیارا اور مسکراتا اسامہ جب خوبرونوجوان بنا تو اس وقت بھی ایک معصومانہ اور دلکش مسکراہٹ اس کی خوبصورت اور خوشگوار شخصیت کا حصہ رہی ۔
اس دوران وہ NUSTاسلام آباد سے انجینئر نگ کی ڈگری لے چکا تھا اور اس کا اپنا ارادہ انجینئر کے طور پر ہی عملی زندگی کا آغاز کرنے کا تھا اس پروگرام میں اسے اپنی امی (ہماری باجی) اور اپنے ابو جان ڈاکٹر فیض احمد (جو خود انتہائی غیر معمولی قابلیت کے حامل ماہر تعلیم ہیں اور آجکل ریاضی کے پروفیسر کے طور پر درس و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان کی بھی تائید حاصل تھی ۔ مگر اس کے چھوٹے ماموں جان اور میرے چھوٹے بھائی ذوالفقار احمد چیمہ (سابق آئی جی پولیس)جو ساری زندگی اس کیلئے رول ماڈل رہے ، چاہتے تھے کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان دے کر سول سروس میں آئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ سول سروس میں اچھے افسروں کی جن میں قابلیت کے ساتھ ساتھ دیانتداری ، اصول پسندی اور جرات ، بھی ہو ، شدید ضرورت ہے ۔ چنانچہ انہی کی خواہش بلکہ اصرار پراسامہ نے سی ایس ایس کا امتحان دیا اور پہلی ہی Attemptمیں کامیاب ہو کر ڈی ایم جی میں آگیا امتحان کی تیاری سے لیکر عملی زندگی اور ملازمت کے مختلف مراحل میں وہ اپنے چھوٹے ماموں جان سے مسلسل رہنمائی لیتا رہا ۔ بلا شبہ اس کی تربیت اور شخصیت سازی میں اس کے والدین کے ساتھ ساتھ اس کے چھوٹے ماموں کا کردار بہت نمایاں رہا ۔
تحدیث نعمت کے طور پر ذکر کر رہا ہوں کہ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ’’ آپ کے خاندان نے اس ملک کو افسر نہیں، رول ماڈل دیے ہیں ‘‘ الحمد للہ اس گھرانے نے اسامہ وڑائچ کی شکل میں اس ملک کو اور بالخصوص پاکستان کی سول سروس کو نوجوان رول ماڈل دیا ۔ جس نے صرف پانچ سال کی عملی سروس میں اپنی قابلیت ، دیانت ، کردار ، جرات ، انصاف اور عوامی خدمت کے حوالے سے وہ مثالیں قائم کیں اور وہ نیک نامیاں کمائیں جو شاذونادر ہی کسی کے حصے میں آئی ہوں گی ۔
اپنی سروس کے آغاز میں ہی اسے کروڑوں روپے کے ایک مشکوک منصوبے کی فائل پر اس کے دستخط یعنی منظوری کی صورت میں کمیشن کے طور پر بہت بڑی رقم کی پیش کش ہوئی اور دستخط نہ کرنے کی صورت میں تبادلے کی دھمکی بھی دی گئی ۔ مگر الحمد للہ رزق حلال سے پرورش پانے والے اور نیک اور بااصول والدین اور چھوٹے ماموں جان کی زیر تربیت رہنے والے اسامہ کے قدم نہ کبھی کسی لالچ سے ڈگمگائے اور نہ ہی کسی دبائو یا دھمکی سے ۔ ایبٹ آباد اور گلیات میں بطور اسسٹنٹ کمشنر جس طر ح اسامہ نے تجاوزات کے خلاف منصفانہ ، جرات مندانہ اور کامیاب آپریشن کیا لوگ اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ آپریشن کے شروع میں ہمارے ملک میں مروجہ روایات کے پیش نظر وہاں کے لوگ سمجھتے تھے کہ تجاوزات کے خلاف اس مہم میں صر ف غریب لوگوں پر ہی ہاتھ ڈالا جائے گااور جہاں بڑے اور بااثر لوگوں کے تجاوزات آئیں گے وہاں قانون اور اس پر عمل درآمد کرانے والے افسران حسب روایت راستہ بدل کر اور دامن بچا کر آگے نکل جائیں گے مگر اسامہ نے آپریشن کا آغاز ہی بڑے لوگوں کے تجاوزات سے کیا ۔ اور جب لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ یہ ’’ سر پھرا ‘‘ نوجوان اسسٹنٹ کمشنر نہ تو کسی گورنر کے تجاوزات کو چھوڑ رہا ہے اور نہ کسی ایم این اے ، ایم پی اے ، کسی بڑے سیاستدان یا کسی بڑے افسر کے تجاوزات کو نظر انداز کر رہا ہے بلکہ انہی کے ناجائز تجاوزات ہی پہلے گرائے جا رہے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر اور علاقے کی فضا بدل گئی اور پھر جس طرف بھی یہ نوجوان اے سی گیا لوگوں نے پر جوش استقبال کرکے بھر پور تعاون کیا اور اس طرح ایبٹ آباد اور گلیات کے علاقہ پہلی بار ناجائز تجاوزات سے مکمل طور پر پاک ہوگیا ۔ اسی طرح کا جرات مندانہ اور منصفانہ کردار اسامہ نے پشاور میں بطور اے ڈی سی جی ادا کیا جسے تمام ذمہ دار افسران اور حکام نے بے حد سراہا۔
اسامہ ایبٹ آباد میں ہی تھا جب 2014ئ میں اس کی شادی ہوئی ۔ اس کیلئے دنیاوی لحاظ سے بڑے بڑے گھرانوں سے رشتے آتے رہے مگر اس کی امی اور ابو جان کو صرف رزق حلال پہ قناعت کرنے والے کسی دیندار گھرانے کی تلاش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش پوری کی اور انہی صفات کے حامل طارق نجیب نجمی صاحب کی نیک بیٹی سے اسامہ کی شادی ہوئی ۔ شادی سے پہلے اسامہ کی امی نے اسے کہا کہ ’’ جہاں ہم تمہارا رشتہ طے رہے ہیں وہ لڑکی دیکھ لو ‘‘ تو موجودہ دور کے اس خوبصورت اور نوجوان اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی امی سے کہا کہ ’’ نہیں امی ! مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ نے دیکھ لی ہے آپ کو پسند ہے تو بس یہی کافی ہے ۔ جو آپ کی پسند ہے وہی میری پسند ہے۔ ‘‘
اسامہ کی ایبٹ آباد اور پشاور میں غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں اسے اپنے پورے بیج میں سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر کے طور پر چترال میں تعینات کر دیا گیا۔ چترال میں اسامہ تقریباً ایک سال رہا مگر اس ایک سال کے مختصر عرصہ میں اس نے عوامی خدمت کی وہ مثالیں قائم کیں جو اس سے پہلے کسی کے حصہ میں نہ آئیں۔
زلزلے اور سیلاب میں جس طرح اس نے دن رات وہاں کے غریب اور متاثرہ لوگوں کے ساتھ رہ کر بحالی کا کام کیا اس نے وہاں کے عوام کے دل موہ لیے۔ سٹرکوں کی بحالی اور کشادگی کا کام ہو ، ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کا معاملہ ہو ، چترال کے نوجوانوں کیلئے تربیتی اکیڈمی کا قیام ہو یا عوام کیلئے خوبصورت پارک کی فراہمی ہو ، اسامہ نے غیر معمولی محنت اور غیر متزلزل جذبے اور استقامت کے ذریعے مفاد عامہ کے ان منصوبوں کو مختصر ترین وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ چترال کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہاں ماضی میں ڈپٹی کمشنر حتیٰ کہ اسسٹنٹ کمشنر کی مصروفیات بھی محض اپنے دفتر یا چند خصوصی تقریبات میں شرکت تک محدود رہتی تھیں مگر پہلی بار یہ نوجوان ڈپٹی کمشنر ضلع چترال جو وسیع و عریض اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے ،اس کے کونے کونے میں پہنچا اور موقع پر جا کر اس نے ان محروم مجبور اور بے یارومدد گار لوگوں کے مسائل سنے اور حل کیے جن تک کبھی کوئی افسر نہ پہنچا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس حادثے کے بعد چترال سے بسوں پر طویل سفر کرکے بیشمار غریب لوگ جن میں مردوں کے علاوہ خواتین بھی شامل تھیں تعزیت کیلئے اسامہ کے والدین کے پاس پہنچے ان کے جذبا ت دیدنی مگر ناقابل بیان تھے وہ کہہ رہے تھے کہ ’’ اسامہ صرف آپ کا بیٹا نہیں وہ چترال کے ہر گھر کا بیٹا ہے ۔ وہ چترال کا محسن ہے ۔ وہ چترال کا ہیرو ہے ۔ وہ چترال کا دیوتا ہے چترال کے ہر گھر میں اسامہ کا ہی ذکر ہے ۔ اس کیلئے گھر گھر قرآن خوانی ہو رہی ہے دعائیں ہو رہی ہیں۔ چترال کے لوگ اسامہ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ ہم اس کے نا م پر چترال میں پارکوں اور سٹرکوں کے نام رکھیں گے ۔ اسامہ کا نام چترال میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ‘‘
اسی طرح کے جذبات کا اظہار ایبٹ آباد اور پشاور سے آنے والے لاتعداد لوگوں نے بھی کیا ۔ 8دسمبر کو تین بجے سہ پہر اسلام آباد کے H-8قبر ستان میں ہونے والے اسامہ کے جنازے میں چترال ، پشاور اور ایبٹ آباد سے آنے والے بے شمار لوگ بھی شامل تھے ۔ یہ جنازہ ممتاز اسلامی سکالر ڈاکٹر غزالی صاحب نے پڑھایا اور اس میں لوگوں نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی کہ اسلام آباد کے لوگ بتارہے تھے کہ انہوں نے اسلام آباد میں اتنا بڑا جناز ہ بہت کم دیکھا ہے ۔ بلاشبہ یہ اسامہ شہید کے حق میں مخلوق خدا کی گواہی تھی جو انشاء اللہ خدائے رحیم و کریم کی بارگاہ میں قبول ہوگی ۔ اور یہ یقینا غریب لوگوں کی دعائیں تھیں جنہیں قبو ل کرتے ہوئے اللہ نے اسامہ کو شہادت کے عظیم مرتبے سے ہمکنار کر دیا۔
(جاری ہے)