علاقائی ترقی اور خوشحالی کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت
دنیا میں جاری گلوبلائزیشن کے دور میںاہم ترین عالمی سلسلہ، خطے پرستی اور علاقائی یکجہتی کا فروغ ہے جس کا مقصد خطے کے مسائل کا حل اور خطے کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے.منظم اور فروغ پذیرعلاقائی یکجہتی کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ خطے میںمشترکہ مفادات اور ایکدوسرے کی ضرورتوں کے بہتر ادراک کے ساتھ خطے کی متفقہ تزویراتی حکمت عملی بنائی جائے اس مقصد کے لئے خصوصاً مغربی ایشیا میں ایک دوسرے کو بہتر سمجھنے کے لیئے، میں ثقافتی اور مذہبی رابطوں کے ذریعے اپنی اصل کی طرف لوٹنا ایک بھرپور اور موثر قدم ہو گا۔
گذشتہ دو صدیوں سے زیادہ عرصہ سے استعماری اور خطے سے باہر کی مختلف طاقتیں ثقافتی اور دوسری اقدار کو ہم پر مسلط کر کے، ان رشتوں کوتوڑنے یا کمزور کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں. جن میں نمایاں طور پر زبان، رسم الخط اور مغربی طرز زندگی قابل ذکر ہیں. کیونکہ وہ ہم سے بہتر طور پر جانتے تھے کہ ہماری ثقافت اور مشترکہ پہچان خطے میں علاقائی ممالک کی آزادی اور خود مختاری کے فروغ میں بہترین عامل کا کردار ادا کر سکتی ہے. گذشتہ دہائیوں میں علاقے سے باہر کی قوتوں نے تبدیلی اور بقول انکے جمہوریت کے فروغ کیلئے جہاں کہیں بھی مداخلت کی ہے، وہاں جنگ، تباہی،بربادی،بھوک اور در بدری کے سوا خطے کے عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آیا ہے۔
لہذا اب وہ وقت آ گیا ہے کہ خطے کے ممالک کو اجتماعی کوششوں اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے، خودی کے فلسفے کی تقویت، خود کفالت کے حصول اور گروہی کام کی ثقافت کو رواج دیکر اپنی آنیوالی نسلوں اور تابناک مستقبل کے لئے امن کے سائے میںاستحکام اور حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کریں. اس مقصد کے لئے ہر ممکن زیادہ علاقائی تعاون، عالمی اور خطے کی علاقائی تنظیموں کی بھرپور صلاحیتوں سے بہرہ مند ہو کر، خطے کے مسائل حل کرنے اور علاقائی مقاصد کے حصول کی تجویز پر زور دیا جاتا ہے.
اسی طرح خطے کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ ہوشیار رہ کر، مشکلات اور غلط فہمیوں پر قابو پا کر خطے سے باہر کی طاقتوں کی طرف سے ان باتوںکو علاقے میںگروہی اور مذہبی اختلافات کو بڑہاوا دینے اور دوسروں کو ڈرانے دہمکانے کیلئے استعمال کرنے کو روک دیں۔
ہمارا اعتقاد ہے کہ کہ مغربی ایشیا اپنے خطے کی بھرپور ثقافتی، قدرتی، سائنسی اور تجارتی پوٹینشل کی بدولت، پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے. لہذا اپنی اس پوٹینشل، عوامی ڈیپلومیسی، سیاحت اور خطے کے عوام کے درمیان فروغ پذیر تعلقات، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی تعامل میں اضافہ کریں اور اس کے ذریعے مسلکی اقتصادی اور قومی فاصلوں کو کم کریں جو آخرکار دہشتگردی اور انتہا پسندی کی بیخ کنی کیلئے فیصلہ کن قدم ثابت ہو گا اور ہمیں خطے میں قیام امن اور خوشحالی جیسے آفاقی مقاصد کے حصول میں مددگار ہو گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران بھی خطے کی بھرپور صلاحیتوں کو مانتے ہوئے، متحرک علاقائی ڈیپلومیسی کو رو بہ عمل لا کر گذشتہ کئی سالوں سے خطے کے جنگ، پانی کے بحران، دہشتگردی، انسانی اور منشیات کی سمگلنگ جیسے مسائل کے حل کے لئے مل کر کام کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو کرعلاقائی تعاون کے فروغ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے. ان مسائل میں دہشتگردی نے دو طرفہ خطرہ اور تباہی پھیلانے والی قوت کے طور پر ایک طرف علاقاتی وسائل کو اپنی طرف موڑتے ہوئے اور دوسری طرف عالمی سطح پر اسلامی ممالک کے اعتقادی چہرے پر کاری ضرب لگائی ہے۔
اس سلسلے میں جمعہ اورہفتہ کے روز 7 اور 8 دسمبر 2018 کو افغانستان، ایران، پاکستان، ترکی، چین اور روس کے پارلمانی سپیکرز کی دوسری کانفرنس تہران میں منعقد ہو رہی ہے، جس کا مقصد دہشتگردی کا مقابلہ، خطے میں علاقائی رابطوں کے فروغ اور تقویت پر غور کرنا ہے. اس کانفرنس کے دو سیشن ہونگے جن میں دہشتگردی کا مقابلہ، تجربات کا تبادلہ، موجودہ حکمت عملی، نہ اور موثر علاقائی تزویراتی پالیسی پرعملدرآمد، رابطوںاور علاقائی تعاون کا فروغ، امن کا قیام اور خطے میں ہمہ پہلو اور پائیدار ترقی کے موضوعات پر بحث ہو گی۔