تحریک طالبان اور خود کش بمباروں کے خلاف فتویٰ
تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے نئے سربراہ مفتی نور ولی محسودجنہوں نے ملا فضل اللہ کے بعد قیادت سنبھالی نے حال ہی میں اپنی تنظیم کو نئی ہدایات دی ہیں۔ پہلے ٹی ٹی پی کے قیام کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان 2007ء سے سر گرم عمل ہے۔ یہ متحارب تنظیم ہے جس میں متعد د عسکر یت پسند گروپ شامل ہیں۔ دسمبر2007ٗء میں13جنگجو جماعتوں نے بیت اللہ محسودکی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کے نام سے تنظیم قائم کی۔ٹی ٹی پی کابنیادی مقصد حکومت پاکستان اور اسکی مسلح افواج کے خلاف جنگ کرنا، اپنے مطابق ’’شریعت‘‘ کی تشریح کو نافذکرنا اور نیٹو کے زیر قیادت افواج کے خلاف افغانستان میں مزاحمت کرنا ہے ۔ ٹی ٹی پی کا قیام پاک۔افغان سرحد کے ملحقہ علاقوں میں تھا۔ کچھ عرصہ اس نے سوات پہ بھی قبضہ کرکے تباہی پھیلائی۔ٹی ٹی پی کا براہ راست تعلق افغان طالبان کے ساتھ نہیں کیونکہ دونوں تنظیموں کے مقاصد، تاریخ اور مفادات مختلف ہیں۔ افغان طالبان نے کبھی پاکستان کو اپنا ھدف نہیں بنایا جبکہ ٹی ٹی پی بنیادی طورپر پاکستان اور اسکی مسلح افواج کو مخالف تصور کرتی ہے۔ ملا فضل اللہ 2013ء کے اواخر میں اس گروپ کے لیڈر بن گئے اور افغانستان میں آما جگاہ بناکر وہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے۔16دسمبر2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پہ خونر یز حملے کا کریڈٹ بھی ٹی ٹی پی نے کلیم کیا جسکے بعد سے حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ فعال ہوگئی۔پاک فوج کے آپریشن کے بعد ٹی ٹی پی مزید بد نظمی کا شکار ہوگئی اور اسکے کچھ دھڑوں نے مبینہ طورپر داعش کی حمایت کا نہ صرف اعلان کیابلکہ خطے میں انکے نمائندے بن کر مزید دہشت گرد حملوں میں شامل ہوگئے۔ ’’ضرب عضب‘‘ کے باعث ٹی ٹی پی کو شمالی وزیر ستان چھوڑنا پڑا۔ بیشتر نے افغانستان میںپناہ لی اور کچھ پاکستان کے شہری علاقوں میں بھیس بدل کر نئے اہداف پہ حملوں کی منصوبہ بندی کر نے لگے ۔اسی وجہ سے ملیٹری آپریشن ردّالفساد وجود میں آیا۔
افغانستان کے کنر صوبے میں اپنی دانست محفوظ پناہ گاہ حاصل کئے ہوئے، ملّا فضل اللہ کو ایک امریکی ڈرون نے میز ائل کے ذریعہ ہلاک کردیا جسکے بعد ٹی ٹی پی نے مفتی نور ولی محسودکو اپنا امیر مقر رکردیا۔ اطاعات کے مطابق مفتی نور ولی محسود اپنے نئے عہدے سے قبل کراچی میں جرائم پیشہ گینگ کا سربراہ تھا اورشہر میں مختلف جرائم میں ملوث تھا۔نئے امیر کاعہدہ سنبھالنے کے بعد مفتی نور ولی محسودنے ’’جہاد‘‘ کا فتویٰ دائر کیا لیکن انہوں نے جہاد کے تصور کوتوڑ مروڑ کرپیش کرنے کے علاوہ لوٹ مار اور جرائم سے حاصل کی گئی دولت کو مال غنیمت قرار دیا اور عسکریت پسندوں کی لوٹی ہوئی دولت کی تقسیم سے متعلق بھی ہدایات جاری کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی پاکستان کے خلاف جنگ جیّد علماء کی نظر میں نہ جہاد ہے اور نہ ہی لوٹ مار سے حاصل کی گئی دولت مال غنیمت ہے۔ مفتی نور ولی محسود کی جانب سے یہ ہدایات انکے پیشروئوں کی مانند اپنے لئے اس لوٹی ہوئی دولت کا بڑا حصہ مال غنیمت کے نام پر خودان پہ قبضہ کرنا ہے۔
ٹی ٹی پی کا انداز عمل مجرموں ،ڈاکوئوںاورمنشیات کے سوداگروں کی مانند ہے۔ دہشت گرد اسلام کے نام پرلوٹ مار کرنے کے علاوہ سادہ لوح عوام کو دھوکہ دے کر چندا اکھٹا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ افسوس ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کو ٹی ٹی پی کی صورت میں بہترین آلہ کار حاصل ہے۔ غیر ملکی انیٹلی جنس ایجنسیاں بھی اس تنظیم کو مالی امداد دینے کے علاوہ جدید ترین اسلحہ اور دھماکہ خیز مادہ مہیاّ کرنے کے ساتھ پاکستان میں مختلف اھداف سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتی ہیں تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔اس ہولناک تنظیم کے رہنما مجرموں کو گلے لگارہے ہیں جنکے ذریعہ پاکستان میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔اس تنظیم کابڑا آلہ کار معصوم نوجوان ہیں جنکا تعلق پسماندہ اور غریب گھرانوں سے ہے جوبے روزگار ہیں۔ ان معصوم نوجوانوں کو اسلام کے نام پر دھوکہ دے کر خودکش بمباروں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ انہیں ورغلایا جاتا ہے۔ کہ اگر انہوں نے اپنی جان قربان کی تونہ صرف وہ ’’شہادت‘‘ کا رتبہ پائیں گے بلکہ ان کے گھروالوں کے لیے بھی جنت کا راستہ کھل جائے گا۔ ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ ان کی ’’شہادت ‘‘ کے بعد انکے گھروالوں کو وظفیہ ملتا رہے گا۔ بہت سے معصوم نوجوان نفسیاتی طورپر تیار کرائے جاتے ہیں کہ وہ خود کش جیکٹ زیب تن کرکے اپنے ہدف پہ پہنچ کر خود کو قربان کردیں اور سینکڑوں افراد کو اپنے ساتھ ختم کردیں ۔جو خود کش بمبار اپنے ہدف پہ پہنچ کر بم پھاڑنے کی سوئچ کو دبانے سے ہچکچاتے ہیں ان کے لئے کچھ فاصلے پہ بیٹھے ’’استاد ‘‘ موجود ہوتے ہیں جو ریموٹ سوئچ کے ذریعہ بم پھاڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنما اور پیروکار خود اپنی جانوں کا نذرانہ اس نام نہاد جہاد میں نہیں پیش کرتے بلکہ معصوم نوجوانوں کو اس گھنائونے کھیل میں ملوث کرکے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چار تسلیم شدہ اور مستند علمائے دین جن کاتعلق حنفی، حنبلی ،مالکی اور شافعی سے ہے انہوں نے فتویٰ دیا ہے کہ خود کش حملہ آور جہنم رسید کئے جائیں گے۔علماء اور مفتی پہلے ہی خود کش حملوں کو اسلامی رو سے حرام قرارد ے چکے ہیں۔ پیغام پاکستان جو ہزاروں، مفتی، علماء اور دانشوروں پہ مشتمل ہے جنکا تعلق تمام فرقوں اور مکتب فکر سے ہے،ان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ خود کش حملے حرام ہیں۔ ان تمام جیّد علماء کی جانب سے یہ حرف آخر ہے کہ خود کش حملے نہ صرف یہ کہ جائز نہیں بلکہ حرام ہیں۔تحریک طالبان پاکستان نے جبر اوستبداد کے ذریعہ مساجداور عبادت گاہوں پہ سینکڑوں حملے کروائے جن میں ہزاروں قیمتی اور معصوم جانیں ناحق قتل کی گئیں۔قرآن حدیث اور مستند علماء کے فتاوی کی روشنی میں کوئی بھی یہ اختلاف نہیں کرسکتا کہ القاعدہ ،داعش اور ٹی ٹی پی معصوم نوجوانوں کو جنت کے جھوٹے وعدے کرکے خود کش بمباروں میں تبدیل کررہے ہیں۔