ناقص طبی سہولتیں ریاستی ناکامی‘ کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت : چیف جسٹس
راولپنڈی (آن لائن+نیٹ نیوز) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال ریاست کی ناکامی ہے۔ راولپنڈی میں ادارہ امراض قلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہسپتالوں میں مریضوں کو صحت کی بہتر سہولیات میسر نہیں۔ ہسپتالوں کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، محنت کرکے مایوسی کی زندگی سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں طبی سہولیات صرف صاحب ثروت افراد کو حاصل ہیں۔ طبی سہولتوں کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صحت کی سہولیات کے لئے فنڈز فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ججز بھی ہسپتالوں کی بہتری کیلئے معاونت فراہم کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا پنجاب کے ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ دیکھی، خیبر پی کے کے ہسپتال میں ایک بستر پر تین تین مریض دیکھے، طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال ریاست کی ناکامی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ نظام صحت میں بہتری لائے، بڑی بدقسمتی ہے ملک میں بچوں کے جگر کے ٹرانسپلانٹ کی سہولت نہیں۔ انہوں نے کہا صوبائی سیکرٹری صحت ڈاکٹر کیوں نہیں ہو سکتے، ایسے افسران تعینات کئے جائیں جنہیں مسائل کا ادراک ہو۔ سفارشی کلچر ختم اور تمام کام میرٹ پر ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ پر 22 ملین کی خطیر رقم لگی۔ اس میں بنیادی سہولیات نہیں، صحت کے نظام میں بہتری کیلئے ماضی کے مقابلے میں زیادہ کام کرنا ہو گا۔ ہم نے ہسپتالوں میں موجود مشینری کیلئے گائیڈلائن دیدی ہے۔ اب یہ ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے وہ قانون کو مکمل انداز میں لاگو کرائے۔ سپریم کورٹ پاکستان میں شعبہ صحت کی بہتری کیلئے مکمل تعاون کرے گی۔ آن لائن کے مطابق انہوں نے کہا پاکستان میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو جبکہ غریب کا اچھا علاج نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا تکلیف کی کوئی زندگی نہیں ہوتی، والدہ کی بیماری میری زندگی کا تکلیف دہ امر تھا۔ میں نے یہ دیکھا پاکستان میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو۔ اس لئے صحت کے شعبہ میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا کہ ہر غریب کا آسان علاج ہوسکے۔ میں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے بھی چندہ لے کر ہسپتالوں کو دیا۔ انہوں نے کہا معاشرہ کے بیمار افراد کے علاج پر توجہ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن غریب کا اچھا علاج نہیں ہوتا حالانکہ یہ اس کا قانونی حق ہے۔ ہسپتالوں میں دیکھا علاج کے بنیادی آلات ہی نہیں۔ وینٹی لیٹرز خراب تھے اور جو ٹھیک تھے۔ وہ صرف سفارشیوں کے لیے تھے، کوئی امیر آجائے تو غریب کو لگا وینٹی لیٹر اتارکر امیر کو لگا دیا جاتا۔ خیبر پی کے ہسپتالوں میں گیا تو دیکھا ایک بستر پر 3،3 مریض تھے، یہ حکومت کی مکمل ناکامی ہے۔انہوں نے مزید کہا صحت کے شعبہ میں حکومتی فنڈز بہت کم ہیں اور وہ بھی درست استعمال نہیں ہوتے، اب میڈیکل تعلیم بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے مگر ہم عطائی زیادہ پیدا کر رہے ہیں، نجی میڈیکل ہسپتالوں کا معاملہ دیکھا تو بتایا گیا پڑھانے والا ہی کوئی نہیں مگر وہ ڈاکٹر بنتے ہیں، میں یہ سن کر ڈر گیا ہم کس طرف جارہے ہیں، سینئر ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہے اس پر نظر رکھیں، ادویات اور علاج کے اخراجات کی قیمتیں مقرر کر دیں،ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قیمتیں دوبارہ بھی دیکھنی ہیں تاکہ ڈالر سے ہم آہنگ ہوسکیں۔
چیف جسٹس
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ روز پہلی بار شام کے اوقات میں مفاد عامہ سے متعلق لئے گئے از خود نوٹس کیسز کی سماعت کیلئے عدالت لگائی۔ فاضل چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس کی آمد سے پہلے ہی درجنوں سائلین اپنے مطالبات اور شکایات لئے ہوئے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے باہر جمع ہو گئے فاضل چیف جسٹس تقریباً 5 بجے عدالت پہنچے۔ سائلین نے قبضہ گروپوں کے خلاف مظاہرہ کیا، انہوں نے چیف جسٹس سے استدعاد کی کہ ان کے مسائل کم از کم خود نوٹس لیا جائے۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظاات کئے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے منشاءبم قبضہ کیس سے متعلق لیا گیا از خود نوٹس نمٹا دیا گزشتہ روز فاضل عدالت کے روبرو ڈی سی لاہور نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ منشاءبم سے تمام وہ زمینیں واگزار کروا لی گئی ہیں جن پر اس نے قبضہ کیا تھا عدالتی استفسار پر محکمہ ریونیو اور ایل ڈی اے نے جواب دیا کہ واگزار کروائی گئی زمینیں انکے قبضہ میں نہیں جس پر فاضل عدالت نے مقدمہ کے مدعی محمود اشرف کو ہدایت کی کہ وہ اپنی زمین کے قبضہ کیلئے سول عدالت سے رجوع کریں۔ اس پر مقدمہ مدعی نے کہا کہ وہ 10 سال سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے مگر مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا۔ فاضل عدالت نے متعلقہ سول عدالت کو چار ماہ میں مقدمے کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ آپ اس بات کو سمجھیں کہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، میں آنے والے چیف جسٹس کیلئے یہ سب چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا، یہ جو میں کچہریاں لگا رہا ہوں یہ اگلے چیف جسٹس کےلئے نہیں چھوڑ سکتا۔ فاضل عدالت نے زیر سماعت مقدمات کا فیصلہ 4 ماہ میں کرنے کا حکم دیتے ہوئے از خود نوٹس کیس نمٹا دیا۔ چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے ایم پی اے ندیم عباس بارا کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے دائر درخواست منظور کر لی۔ فاضل عدالت نے درخواست گزار کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا اور درخواست نمٹا دی۔ سپریم کورٹ نے سرکاری ہسپتالوں سے متعلق لئے گئے از خود نوٹس کیس میں پے کمشن کی سفارشات پر کابینہ میں کئے گئے فیصلوں کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ فاضل عدالت نے گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کی۔ سیکرٹری صحت نے فاضل عدالت کو بتایا کہ پے کمشن نے تنخواہوں میں اضافے سے متعلق 4 تجاویز دی ہیں، ان سفارشات کو کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے جہاں یہ معاملہ زیر غور ہے۔ فاضل عدالت نے کابینہ کے فیصلے کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں یو سی ایچ میں وینٹی لیٹرز کی عدم موجودگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے وزیر صحت، سپیشل سیکرٹری صحت، ایم ڈی پیداوار وزارت خزانہ کے روز طلب کر لئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے وینٹی لیٹرز کی عدم موجودگی پر اظہار برہمی کرتے کہا کہ زندگی بچانے کیلئے ہسپتال میں وینٹی لیٹرز کا انتظام ہی موجود نہیں وزیراعلیٰ پنجاب سے کہیں اس دن لاہور میں رہیں، آدھے گھنٹے کے نوٹس پر طلب کیا جا سکتا ہے۔ وینٹی لیٹرز زندگی بچانے کیلئے ضروری ہیں، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ وینٹی لیٹرز کی خریداری کا فوری انتظام کیا جائے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں یو سی ایچ میں وینٹی لیٹرز کی عدم موجودگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے وزیر صحت، سپیشل سیکرٹری صحت، ایم ڈی پیپرا اور وزارت خزانہ کے ذمہ دار افسر کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے وینٹی لیٹرز کی عدم موجودگی پر اظہار برہمی کیا اور قرار دیا زندگی بچانے کیلئے ہسپتال میں وینٹی لیٹرز کا انتظام ہی موجود نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے کہیں اس دن لاہور میں رہیں۔ آدھے گھنٹے کے نوٹس پر طلب کیا جا سکتا ہے۔ وینٹی لیٹرز زندگی بچانے کیلئے ضروری ہیں۔ وینٹی لیٹرز کی خریداری کا فوری انتظام کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے ڈاکٹرز کے ہاسٹل کیلئے دو ایکڑ زمین فراہم کرنے کا حکم دیدیا۔ فاضل عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا زمین پر قبضے کا کوئی معاملہ ہو تو عدالتیں کارروائی کریں گی۔ سپریم کورٹ نے لاہور رجسٹری میں پولیس افسران کی جانب سے شہری کی جائیداد پر زبردستی تصفیے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو کمشن رپورٹ کی کاپیاں فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔فاضل عدالت نے جسٹس ریٹائرڈ نجم الحسن کی رپورٹ پر فریقین کو اعتراضات جمع کرانے کی ہدایت بھی کر دی۔درخواست گزار فوزیہ اجمل نے کہا ان کورپورٹ پر اعتماد ہے۔ عدالت کا بہت بہت شکریہ کہ ہمیں انصاف ملا۔اس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا عدالتوں کا شکریہ نہیں ہوتا۔ انصاف فراہم کرنا عدالت کا فرض ہے۔ایف آئی اے کی طرف سے بتایا گیا 4 افراد کے اثاثوں سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی ہے۔درخواست گزار فوزیہ اجمل نے موقف اختیار کیا تھا سابق سی سی پی اومین وینس اور سابق ایس پی سی آئی اے عمر ورک نے زبردستی اکبری سٹوری سمیت جائیداد کا تصفیہ کرایا تھا۔جس سے ان کو نقصان ہوا جس پر فاضل عدالت نے نوٹس لیا اور کمشن بھی بنایا۔
چیف جسٹس /عدالت