آبادی کم یا زیادہ؟
جب جنرل ایوب خان نے ساٹھ کی دہائی میں آبادی کی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کیا تو اس پروگرام کی مذہبی حلقوں خاص طور پر علماءکرام کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی تھی۔علماءکا موقف یہ تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی کا تصور اسلام کے منافی ہے۔ ان مذہبی حلقوں نے اس دور میں یہ نظریہ بھی پھیلایا کہ مسلمان ملکوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام شروع کرنے کا مقصد مسلمانوں کو عددی اعتبار سے دنیا میں کم کرنا ہے۔ اس دور میں زیادہ آبادی کو سیاسی اور اقتصادی طاقت اور اثرورسوخ کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا اس دور میں ہمسایہ ملک چین کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ چین کے راہنما ماو¿زے تنگ اپنے ملک کی افرادی قوت کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے انہوں نے اپنے ملک کی افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کے اپنے پروگرام ”آگے کی طرف جہت“ GREAT LEAP FORWARD کا آغاز کیا تھا۔ جدیدچین کی ترقی میں اسکی آبادی یا افرادی قوت نے اہم کردار ادا کیا لیکن ماو¿زے تنگ کے بعد جب چین میں قیادت اور سوچ میں تبدیلی آئی تو نئی چینی قیادت نے دینگ سیاو¿ لینگ کی قیادت میں آبادی کی منصوبہ بندی پر غور کرنا شروع کیا۔ غوروفکر کے بعد ”ون چائلڈ پالیسی“ کو اپنایا گیا۔ جس سے چین کی بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کیا گیا۔ موجودہ دور میں زیادہ آبادی کی بجائے ہنرمند ،تعلیم یافتہ اور صحت مند آبادی کو معاشی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بے تحاشا بڑی آبادی جو تعلیم اور ہنر سے بے بہرہ ہو اور جو صحت مند نہ ہو وہ ملک اور معاشرے کی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے اُلٹا بوجھ بن جاتی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں جب ایوب خان کو پاپولیشن پلاننگ کا پروگرام شروع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا کہ اس وقت پاکستان کے دونوں حصوں مغربی اور مشرقی پاکستان کی آبادی دس کروڑ سے کم تھی۔ مشرقی پاکستان میں آبادی بڑھنے کی رفتار زیادہ تھی جو معاشی منصوبہ بندی کے ماہرین کے لیے پریشانی کا سبب تھی۔ لیکن مذہبی حلقوں نے ایوب خان کے پاپولیشن پلاننگ کے پروگرام کو کامیاب نہیںہونے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بننے کے بعد اپنی آبادی پر قابو پالیا ہے اور وہاں آبادی کے بڑھنے کی رفتار پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔
مشرقی پاکستان 1971ءمیں الگ ہوگیا جب ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان میں اقتدار سنبھالا تو اس کی آبادی آٹھ کروڑ تھی۔ستر کی دہائی کے پاکستان کے مسائل معاشی اور سلامتی کے مسائل تھے۔ بھٹو حکومت کی توجہ ان مسائل پر مرکوز رہی۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں پاپولیشن پلاننگ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ضیاءدور کے بعد بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتوں اور ان کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بھی آبادی کی منصوبہ بندی کو ترجیح نہیں دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے رواں ہفتہ میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے جو سمپوزیم کرایا اس میں دانشوروں اور ماہرین نے پاکستان انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے معاشی اور سماجی مضمرات پر تفصیل سے گفتگو کی۔ اس سمپوزیم میں ہونے والی گفتگو کالب لباب یہ تھا کہ پاکستان میں آبادی کی منصوبہ بندی کے پروگرام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ”کم بچے خوشحال گھرانہ“ کے نعرہ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا نعرہ تھا جو اب بالکل غائب ہوگیا ہے۔ یہ نعرہ اس لیے غائب ہوگیا ہے گزشتہ بیس برس میں اقتدار میں آنے والے اس نعرے کو بھول گئے تھے۔ آبادی کے بارے میں منعقد ہونے والے اس سمپوزیم میں ممتاز مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے مذہبی اعتبار سے پاپولیشن پلاننگ کے تصور کا جائزہ لیا ان کا استدلال یہ تھا کہ تعلیم اور علم کو عام کئے بغیر پاپولیشن پلاننگ کا پروگرام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جن علاقوں میں آبادی بے تحاشا تیزی سے بڑھ رہی ہے وہاں تعلیم کی کمی ہے۔ ان علاقوں کے رہنے والے زیادہ بچوں کو کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ ”کم بچے خوشحال گھرانہ کی بجائے “ ”زیادہ بچے خوشحال گھرانہ“ کے پیروکار ہیں۔ اگر ان لوگوں کو یہ شعور دے دیا جائے کہ دو بچے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوں تو وہ ان کے ایک درجن ان پڑھ اور غیر ہنر مند بچوں کے مقابلہ میں انہیں کہیں زیادہ کما کر دے سکتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل اور دوسرے مقررین نے ایک اور اہم پہلو جسے اجاگر کیا وہ ہمارے معاشرے میں لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کو ترجیح دینے کا رحجان ہے۔ جب تک کوئی خاتون لڑکا جنم نہیں دیتی اس وقت تک اسے بچے پیدا کرنے کی مشین بنا دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں ہونے والے آبادی کے بارے میں سیمینار میں فکر انگیز گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو سے آبادی کی منصوبہ بندی کرنے والے استفادہ کریں گے اور آبادی کی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں پھر سے جان ڈالیں گے یہ دیکھنا باقی ہے۔