بلائنڈ کرکٹر مجیب الرحمٰن نے بھی امریکی نابینا لڑکی سے شادی کر لی
پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی مجیب الرحمٰن نے بھی امریکی نابینا لڑکی سے شادی کر لی۔ خدا جانے انہوں نے دل کی آنکھوں سے کیسے ایک دوسرے کو دیکھ کر ’’قبول ہے‘‘ کا مرحلہ طے کیا ہوگا۔شاید یہ بھی نیٹ کا کمال ہو۔ویسے تو پاکستان میں ایک سے ایک آنکھوں والی لڑکی انہیں مل سکتی تھی۔ مگر شاید انہوں نے ڈھونڈنا گوارا نہیں کیا یا پھر انکے گھر والوں کو ملی نہیں ہو گی۔ جبھی تو بہ امر مجبوری انہوں نے بھی امریکی نابینا دلہن قبول کرلی۔ آج کل نجانے کیا بات ہے کہ امریکی لڑکیاں اور خواتین خاص طور پر پاکستانی نوجوانوں پر مہربان ہیں۔ صرف جوان ہی نہیں اڈھیر عمر کی خواتین بھی پاکستانی نوجوانوں پر دل و جان سے فدا نظر آتی ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ شادی کر کے روایات کی مطابق اپنے پیا کے پاکستان میں آباد ہوں مگریہ ان کے بس کی بات نہیں اس لئے وہ دولہا کو اپنے ساتھ لے جا کرہی دم لیتی ہیں۔ ان خواتین کے لئے ہماری معاشرتی اقدار کے ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ اب بعد میں ہوتا ہے یہ ہے کہ ہمارے دولہے بھی وہاں جا کر مغربی کلچر دیکھ کر خدا جانے ہاتھ ملتے ہیں یا روتے ہیں۔ اب کرکٹر مجیب الرحمٰن کی تو بات علیحدہ ہے۔ انہیں کم از کم دیار غیر میں وہاں کے اس کلچر کا نظارہ پوری طرح نہیں ہوگا۔ جوآنکھوں والوں کو شرم سے پانی پانی کرتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں مقیم اکثر ایشیائی اسی وجہ سے اپنی بچیوں اور بچوں کی شادی اپنے آبائی وطن میں کرنا چاہتے ہیں کہ کم از کم وہ اپنی مٹی سے جڑے رہیں۔ اب مجیب الرحمٰن کے جانے سے ہماری بلائینڈ ٹیم کو ایک کھلاڑی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈر لگ رہا یہ کہیںباقی کھلاڑی بھی انہی کے نقش قدم نہ چل پڑیں…
٭…٭…٭
کراچی : یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے چالان پرایس ایس پی ٹریفک تبدیل
کون کہتا ہے ہمارے ہاں صرف حکومت ہی طاقت ور ہوتی ہے، ہمارے ہاں تو اپوزیشن والے بھی ابھی تک اتنے ہی طاقتور ہیں جتنا حکومت والے ۔ یوسف رضا گیلانی کے فرزندوں کے حوالے سے کئی بار پہلے بھی قانون کو موم کی ناک بنا کر من چاہے انداز میں مروڑنے کے واقعات سامنے آچکے ہیں ۔ مگر وہ بھی باز آنے والوں میں نہیں ۔ اب ایک بار پھر سندھ میں جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور گزشتہ روز ہی پارٹی کے چیئرمین بلاول جی نے وہاں کی گڈ گورننس کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے تھے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ سندھ نے بھی کہاتھا کہ ہمیں پتہ ہے پنجاب میں پولیس کو کس طرح استعمال کیا جاتاہے ۔ آج اسی سندھ میں پیپلزپارٹی کے ایک سابق وزیراعظم کے بیٹے کے چالان پر گڈ گورننس کا جو خوبصورت مظاہرہ دیکھنے میں آیا ، اس سے امید ہے وزیراعلیٰ سندھ کو بھی تسلی ہوگئی ہوگی کہ سائیں سب کو پتہ ہے سندھ میں پولیس کو کس طرح استعمال کیاجاتا ہے۔صرف پارٹی کے رہنما کے بیٹے کے چالان پر اتنے بڑے پولیس اہلکار کی تبدیلی واقعی سندھ حکومت کو ہی زیب دیتی ہے ۔سندھ ہی کیا پورے ملک میں صوبائی ہو یا وفاقی حکومت سب اس حمام میں ننگے ہیں ۔ ہر ایک اپنی طاقت دکھا کر اپنی برتری منوانے کے چکر میں نظرآتا ہے۔ عام آدمی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرے تو جرمانے اور سزا کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ بڑا با اثر آدمی یہی حرکت کرے تو اسے پکڑنے والا مستوجب سزا ٹھہرتا ہے ۔واہ رے واہ کیا بات ہے ایسی سزا وجزا کی ۔
٭…٭…٭
70کی دہائی میں ٹیلی فون لگوانے کے لئے 50ہزار روپے رشوت دی تھی : صدر مملکت
لگتا ہے صدر مملکت نے یہ بات مذاق میں کی ہوگی یا ان کو سن یاد نہیں رہاہوگا۔ 70کی دہائی میں تو اتنی لٹ نہیں مچی تھی۔ اس وقت 50ہزار روپے بہت بڑی رقم تصور ہوتی تھی۔ چند ہزار روپے رشوت دے کر ٹریڈنگ لائسنس مل جاتاتھا۔ ٹیلی فون کیلئے اس وقت رشوت کا ریٹ یادش بخیر 500بھی بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ 50ہزار کی رقم میں تو کراچی میں اچھے علاقے میں فلیٹ مل جاتا تھا۔اس وقت ملک میں لکھ پتی کم ہوتے تھے ، کروڑ پتی تو چند ایک ہی تھے۔ لگتا ہے عارف علوی صاحب اس وقت بھی خاصے متمول ہوں گے ۔ جبھی تو یہ رقم انہوں نے ٹیلی فون لگوانے پر دی ۔اس وقت ٹرن ٹرن والے ٹیلی فون بھی متمول گھرانوں میں ہوتے تھے ۔ اب اس بیان کے بعد کہیں نیب والے انکے مالی امور کا سراغ لگانے نہ نکل پڑیں، اور سراغ رساں ان ٹیلی فون لگانے والوں کا کھوج نہ لگانا شروع کریں ، جنہوں نے اتنی بڑی رقم رشوت کے طور پر لی اور ہمارے مصلحین کہیں رشوت لینے اور دینے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کرنے لگیں۔ تاہم صدر مملکت کی اس گرم گفتاری یا راست بازی سے ایک بات ضرور سامنے آتی ہے کہ ہمارے سرکاری محکمے ابتداء ہی سے ’’اوپر والی آمدنی‘‘ کی فیوض و برکات سے آگاہ تھے اور اس گنگا میں ڈبکی لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ بس اصل بات وہی 50ہزار والی کھٹکتی ہے۔ اتنا ریٹ تو آج کل سوئی گیس کنکشن یا بجلی کنکشن لگانے والے مانگتے ہیں ۔
٭…٭…٭
تھر میں چیف جسٹس کے دورے سے قبل ہسپتالوں کو گل و گلزار بنادیاگیا
اگر تھر کے شہری یا دیہی علاقوں کے باشندے آج اپنے مٹھی ہسپتال کو دیکھنے کیلئے نکل پڑیں تو شاید وہاں داخلے کیلئے ٹکٹ لگانے پڑے۔ کیونکہ تھر انتظامیہ نے اس ہسپتال میں جہاں خاک اور دھول اڑتی تھی ۔ راتوں رات نمائشی پودے اور گملے لگا کر ان کو تھر کے باسیوں کیلئے بہشت بریں بنا دیا ہے۔ برسوں بعد ان ہسپتالوں کی صفائی ہوئی جھاڑ و پھیرا گیا۔ گنداٹھایا گیا ۔ٹوٹ پھوٹ کی فوری لیپا پوتی کر دی گئی۔ بستروں کی چادریں تبدیل ہوئیںتاکہ جب چیف جسٹس یہاں آئیں تو یہاں ہر طرف مریضوں کیلئے جنت کا سماں نظر آئے۔اگر بنا اطلاع چیف جسٹس صاحب کبھی چپکے سے یہاں آتے تو اپنی آنکھوں سے دنیا میں بنے اس دوزخ دیکھ لیتے۔ یہاں ہسپتالوں میں ہر روز متعدد بچے بھوک ، خوراک کی کمی ، خون کی کمی ادویات کی کمی اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے دنیا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب تو دکھاوے کیلئے ہو سکتا ہے ہسپتالوں کے عملے والے اپنے صحت مند بچوں کو لا کر ہسپتال کے بیڈ پر لٹا کر چیف جسٹس صاحب کو یہ دکھائیں کہ دیکھیں ہماری بھرپور توجہ ہے یہاں سب بچے کیسے صحت مند ہو رہے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں ماموں بنانا یا آنکھوں میں دھول جھونکنا، ورنہ سب تھرواسی جانتے ہیں کہ وہاں کے ہسپتالوں میں زندگی نہیں موت بانٹی جاتی ہے ۔ مگر عملے نے کیسی مہارت سے انہیں زندگی گلزار ہے کے منظر میں بدل کر رکھ دیا ہے۔بقول شاعر ’’محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024